• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق كے بعد بچی کی پرورش کا حق کس کو ہے؟

استفتاء

ايك شخص نے  پہلی بیوی کو بتائے بغیر دوسری شادی کرلی، جب پہلی بیوی کو علم ہوا  تو اس نے لڑائی جھگڑا کیا ، شوہر نے بیوی کو راضی کرنے کی بہت کوشش کی لیکن بیوی نے کہا کہ میں نے آپ کے ساتھ نہیں رہنا، بالآخر شوہر نے جرگے کے سامنے بیوی کو تین طلاقیں دیدیں۔ بیوی کی گود میں شیر خوار بچی ہے۔ سوال یہ ہے کہ :

والد اس  بچی کو لے سکتا ہے یا ماں کو اپنے پاس رکھنے کا حق ہے؟

اگر حق ہے تو ماں کے دوسری شادی کرنے کی صورت میں حق باقی  رہے گا یا ختم ہوجائے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1 . مذکورہ صورت میں نو سال تک ماں کو بچی اپنے پاس رکھنے کا حق ہے اس کے بعد والد بچی  کو لے سکتا ہے۔

2.اگر ماں نے کسی ایسے مرد سے نکاح کرلیا جو بچی کا محرم رشتہ دار نہیں تو ماں کو بچی کی پرورش کا حق نہیں رہے گا اور اگر بچی کے کسی محرم رشتہ دار  مثلاً بچی کے چچا سے نکاح کرلیا  تو ماں کا حق پرورش باقی رہے گا۔

نوٹ: ماں کا پرورش کا حق ساقط ہونے کی صورت میں نانی کو پرورش کا حق ہوگا، نانی کے نہ ہونے کے صورت میں دادی کو پرورش کا حق  ہوگا۔

الدر المختار (5/269) میں ہے:

الحضانة تثبت للام …… ثم بعد الام بان ماتت او لم تقبل او اسقطت حقها او تزوجت باجنى ام الام وان علت عند عدم اهلية القربى ثم ام الاب وان علت.

الدر المختار (5/261) میں ہے:

الحضانة تثبت للام …….. الا ان تكون مرتدة …… او متزوجة بغير محرم الصغير.

الدر المختار مع ردالمحتار (5/274) میں ہے:

‌والام ‌والجدة لام أو لاب أحق بالصغيرة حتى تحيض أي تبلغ في ظاهر الرواية وغيرهما احق بها حتى تشتهى وقدر بتسع وبه يفتى  ….. وعن محمد ان الحكم في الام والجدة كذلك وبه يفتى لكثرة الفساد والحاصل ان الفتوى على خلاف  ظاهر الرواية

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved