• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

طلاق کی خبر دینا

استفتاء

میرے والد صاحب کی عمر 60 سال ہے، شادی کو 35- 40 سال ہو گئے ہیں، میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے گالی گلوچ اور مار کٹائی ہی سنتا دیکھتا آ رہا ہوں، اپنی بیوی اور اولاد پر غلط اور نا پاک الزام لگاتے رہتے ہیں، غصے میں بس یہی کام ہے ان کا، غصے میں کوئی کنٹرول نہیں کر سکتا ان کو، اور جب ٹھنڈے ہوتے ہیں یا پیسے زیادہ ہاتھ آ جاتے ہیں تو خود ہی بعض اوقات اپنے آپ کو ملامت کرتے ہیں کہ میں غلط کرتا ہوں ڈانت ڈپٹ، مار کٹائی کر کے۔

غصے میں والد صاحب ایک بات کو بار بار دہرانے کے عادی ہیں اور تکلیف میں بھی ان کی یہی عادت ہے۔ پچھلے ہفتے والد صاحب نے میری والدہ کو طلاق دے دی میرے سامنے، میری خدمت گذار پاکدامن ماں کو کہا کہ "میں نے اس کو طلاق دی”، میں نے کہا بس فارغ  تو آپ نے کر ہی دیا ہے اور وہ یہ کہتے جا رہے ہیں"میں نے اس کو طلاق دی، میں نے اس کو طلاق دی، بس میں نے اس کو طلاق دی”۔

اب اپنے کیے پر نادم ہو کر رجوع کر رہے ہیں اور یہ اقرار کر رہے ہیں کہ میں نے تین طلاق کی نیت کی ہی نہیں تھی، وہ ایک ہائی اسکول ہیڈ ماسٹر ہیں، دو مرتبہ دل کا دورہ پڑ چکا ہے، شوگر کے بھی مریض ہیں، نفسانی مریض بھی ہیں، گہری سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں، کوئی پاس بیٹھ جائے تو اپنے پیسے اور پراپرٹی کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ مفتی صاحب اگر یہ طلاق ہو گئی ہے تو وہ بہت زیادہ نقصان کرنے کے لیے تیار ہیں۔

تنقیح: طلاق کے الفاظ یہ تھے: "میں اونوں طلاق دتّی”۔

"بس میں اینوں طلاق دتّی، بس میں اینوں طلاق دتّی”۔فون پر مستفتی نے کہا کہ غالب گمان یہ ہے کہ "طلاق دتّی” کی بجائے کہا "طلاق دیتّی” (یعنی طلاق دے دے)۔  (یہ آخری دو جملے مستفتی کے جواب میں کہے یعنی جب بیٹے نے کہا کہ "بس فارغ تو آپ نے کر ہی دیا ” تو اس کے جواب میں یہ آخری دونوں جملے کہے۔)

نیز یہ سب گفتگو کرتے وقت اگرچہ وہ غصے میں تھے لیکن مکمل ہوش میں تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہو ئی ہے، عدت گذرنے سے پہلے پہلے خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہے۔ آئندہ کے

لیے خاوند کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق باقی رہ جائے گا۔

توجیہ:"میں اونوں طلاق دتّی” کا ترجمہ ہے "میں نے اس کو طلاق دی”، جبکہ دوسرے دو جملوں یعنی "میں اینوں طلاق دیتّی” کا ترجمہ بنتا ہے "میں نے اس کو طلاق دے دی”۔ چونکہ آخری دو جملے اخبار کے ہیں اور سائل کی انشاء کی نیت بھی نہیں تھی، اس لیے مذکورہ صورت میں ایک ہی طلاق واقع ہو گی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved