• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کو ’’ چاہنے ‘‘پر معلق کرنا

استفتاء

میری ہمشیرہ کی شادی چار سال قبل ہوئی۔ دو سال بعد شدید تنازعات اور جھگڑوں کے سبب معاملہ بگڑ گیا اور اسے گھر آنا پڑا۔ خلع کا مطالبہ کیا گیا مگر بہنوئی صاحب نہ مانے۔ معاملہ اس درجہ کا بڑھا ہوا تھا کہ عدالت جانا پڑا۔ علمائے کرام نے فرمایا کہ اگر لڑکا طلاق نہ دے تو عدالت خلع نہیں دلوا سکتی۔ لہذا شرائط پر لڑکی کو ایک بار پھر واپس بھیج دو، ان لوگوں سے عرض کیا گیا مگر وہ نہ مانے۔

عدالت میں آخری پیشی سے قبل ایک دن بہنوئی صاحب اپنے والدین کے ہمراہ آگئے اور مصالحت کی بات کی۔ اپنے کیے پر معافی بھی مانگی۔ شرائط کی بات کی گئی تو انہوں نے سٹام پیپر پر تو دستخط سے انکار کیا مگر زبانی سب کے سامنے ماننے کے لیے تیار ہوگئے۔

دونوں خاندانوں نے بیٹھ کر جس میں لڑکا اور لڑکی موجود تھے۔ شرائط طے ہوئے اور یہ طے پایا کہ اگر اس کاوش کے باوجود ذہنی ہم آہنگی نہ ہوسکی اور لڑکی گھر واپس آگئی تو تین ماہ تک بڑے کوشش کریں گے اور مصالحت نہ ہونے کی صورت میں اگر لڑکی بہنوئی سے طلاق کے لیے چاہے گی تو بہنوئی صاحب کی طرف سے بائن ہوگی۔ بہنوئی صاحب نے کہا ہاں ٹھیک ہے۔ مجھے منظور ہے۔ اس بات کو صراحتاً دو مرتبہ دہرایا اور بہنوئی صاحب نے عرض کیا مجھے منظور ہے۔ اس کے بعد ہمشیرہ واپس چلی گئی۔ کچھ ماہ بعد تنازعات دوبارہ اسی طرح شروع ہوگئے۔ اور شدت اختیار ہونے کی وجہ سے ہمشیرہ پھر گھر واپس آگئی۔ ایک سال تک ان سے بات چلی مگر کوئی صورت نہ نکل سکی۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ہم لوگ معاملہ آپس میں حل کر لیں مگر ہر دفعہ وہ طلاق دینے کے لیے نئے مطالبات رکھ دیتے ہیں۔

11 نومبر 2012 کو ہمشیرہ نے چودہ ماہ بعد لڑکے کو پیغام بھجوایا کہ میں نے تم سے طلاق لینے کی جیسا کہ دونوں خاندانوں کے مابین طے پایا تھا نیت کرلی ہے۔ مگر تاحال اس نے جواب نہیں دیا۔ عدالت میں بھی بالآخر کیس دائر کرنا پڑ رہا ہے۔

آپ حضرات سے پوچھنا یہ ہے کہ کیا اب ہمشیرہ شرعی طور پر اس سے علیحدہ ہوگئی اور طلاق بائن واقع ہوگئی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ابھی تک آپ کی ہمشیرہ کو طلاق نہیں ہوئی، البتہ اگر ہمشیرہ اپنے شوہر سے طلاق مانگے گی تو مانگنے سے ایک طلاق بائنہ ہوجائے گی۔

توجیہ: استفتاء کے اندر یہ الفاظ ہیں ’’ مصالحت نہ ہونے کی صورت میں اگر لڑکی بہنوئی صاحب ( یعنی اپنے خاوند) سے طلاق کے لیے چاہے گی تو بہنوئی صاحب کی طرف سے ایک طلاق بائن واقع ہوگی ‘‘ اس میں چاہنے کا لفظ مشیت پر محمول نہیں جو کہ مقید بالمجلس ہوتی ہے۔ بلکہ یہ مطالبہ کرنے اور درخواست کرنے پر محمول ہے، کیونکہ بہنوئی سے طلاق چاہنا درخواست اور مطالبے کی صورت میں ظاہر ہے نہ کہ مشیت قلبی کی صورت میں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved