• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کو شرط پر معلق کرنے اور خلع لینے کا حکم

استفتاء

ہمارے بیٹی کی اس کے چچا کے بیٹے کے ساتھ شادی ہوئی ،لڑکا کئی کئی راتیں گھر سے باہر رہتا تھا اور بچی کا خیال نہ رکھتا تھا۔ ۹ ماہ سے بچی ہمارے گھر ہے وہ لینے کے لیے بھی نہ آیا اور نفقہ بھی نہ دیتا تھا ۔ بچی کو تنگ کر کے رکھا ہوا تھا  اور جسمانی تشدد بھی کرتا تھا،  اس رویہ کی وجہ سے ہم نے عدالت سے رجوع کیا اور خلع لے لیا ،خلع کے نوٹس ان کو جاتے رہے ان کا وکیل عدالت میں پیش ہوا اور آخری پیشی میں یہ کہا کہ ان کو خلع دے دیں لیکن میرے موکل پر کوئی خرچہ نہ ڈالیے گا ۔ اس کے بعد ہمیں عدالت نے خلع کی ڈگری جاری کر دی اور ان لوگوں نے خود جہیز وغیرہ واپس بھیج دیا اور اس خلع کے کیس کو کسی عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا ۔ لہذا اب شرع کے اعتبار سے راہنمائی فرمائیے کہ کیا ہم اپنی بچی کا نکاح کہیں اور کر سکتے ہیں ؟ یہ خلع شرعاً بھی معتبر ہو گا ؟

بیوی کا بیان :

یہ لوگ مجھے بسانا ہی نہ چاہتے تھے ۔ میرا شوہر کئی کئی راتیں گھر سے باہر رہتا تھا اور کہتا تھا کہ مجھے تمہارے پاس سکون نہیں ملتا اس لیے میں گھر سے باہر رہتا ہوں۔بات بات پر طلاق کے جملے بولتا تھا مثلا اگر میری والدہ کام کر رہی ہوں اور تم پاس کھڑی ہو تو تمہیں طلاق ،اگر میری والدہ کے ہاتھ میں چھری ہو اور تم پاس ہو تو تمہیں طلاق اور اگر میرے والدین کو جواب دیا تو تمہیں طلاق۔ اور یہ ساری چیزیں پائی بھی گئیں ان کی والدہ خود کام کرتی تھی مجھے کرنے نہیں دیتی تھی میں پاس کھڑی بھی ہوئی ،چھری ان کے ہاتھ میں تھی تب بھی میں پاس کھڑی ہوئی ان کے ماں باپ کو میں نےجواب  بھی دیا ۔تین ماہ میں ان کے گھر رہی ہوں اس دوران یہ جملے بولتے تھے اور ہم اکھٹے رہتے رہے ۔ انہوں نے مجھ پر تشدد بھی کیا اور منہ پر تکیہ رکھ کر جان سے مارنے کی کوشش بھی کی ۔ اب نو ماہ سے میں ماں باپ کے پاس ہوں ،مجھے نفقہ بھی نہیں دیتے اور لینے بھی نہیں آئے ۔ یہ چاہتے ہیں کہ ہم خود خلع لے لیں تاکہ طلاق کا دھبہ ان پر نہ لگے۔ اس لیے ہم نے عدالت سے رجوع کیا اور خلع لے لیا ۔

شوہر کا بیان :

مذکورہ بالا باتیں غلط ہیں ۔ میری تربیت میں یہ بات شامل ہی نہیں کہ میں عورت پر ہاتھ اٹھاؤں یا بد زبانی کروں ۔ میں نے آج تک کبھی اپنی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا ۔ اور نہ ہی میں نے کبھی طلاق کے الفاظ بولے۔

انہوں نے پہلے مجھ پر عنین ہونے کا الزام لگایا اور ٹیسٹ کروانے پر مجبور کیا ،میں نے ان کے کہنے پر ٹیسٹ کروایا جس کی رپورٹ میرے سسر نےہی حاصل کی پھر ہم میاں بیوی نے ملاقات بھی کی اس کے بعد جب رمضان آیا تو ان کی طرف سے مطالبہ تھا کہ بچی کو بھیج دیں رمضان اپنے والدین کے گھر گزارے۔ ہم نے ان کے کہنے پر بھیج دیا جس کے بعد انہوں نے بچی کو واپس نہیں بھیجا ۔ ہم نے بہت کہا کہ واپس بھیج دیں یا میں لینے آجاتا ہوں لیکن وہ نہ مانے اور بچی کو اپنے گھر ہی رکھا ۔ بھیجتے وقت ہم نے خوشی خوشی بھیجا ،عیدی بھی دی اور کپڑے بھی خرید کر دئیے ۔ صلح کے لیے ہم نے بہت لوگوں کو ڈالا لیکن یہ نہ مانے ۔ ہم ان کے گھر کے باہر کھڑے رہتے یہ دروازہ ہی نہ کھولتے تھے ۔ ہم ابھی بھی صلح کے لیے تیار ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  لڑکی اور اس کے والد کے بیان  میں جو باتیں مذکور ہیں اگر وہ واقعتاً غلط ہیں تو لڑکی کا نکاح برقرار ہے اور اسے آگے نکاح کرنے کی شرعاً اجازت نہیں  اور  اگر یہ باتیں  واقعتاً درست ہیں تو عدت گذرنے کے بعد لڑکی آگے نکاح کرسکتی ہے۔ عدت گذرنے کا مطلب یہ ہے کہ  تیسری طلاق کے بعد تین ماہواریاں گذر گئی ہوں مزید احتیاط یہ ہے کہ خلع کے فیصلے کی تاریخ کے بعد تین ماہواریاں گذر گئی ہوں۔

توجیہ: طلاق کے معاملے میں عورت کی حیثیت قاضی کی  طرح ہوتی ہے جس کی وجہ سے اگر وہ شوہر سے طلاق کے الفاظ خود سُن لے یا معتبر ذرائع سے اس کو طلاق کی خبر ملے تو وہ اپنے حق میں طلاق شمار کرنے  کی پابند ہوتی ہے ۔ اور جب طلاق کو کسی شرط پر معلق کیا جائے تو شرط پائے جانے کی وجہ سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ مذکورہ صورت میں بیوی کے بیان  کے مطابق  شوہر نے تین مرتبہ طلاق کو شرط پر معلق کیا اور شرط پائی بھی گئی جس سے پہلی شرط پائی جانے کی وجہ سے ایک طلاق ہوئی پھر میاں بیوی اکٹھے رہنے لگے تو رجوع ہو گیا اور شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیار باقی رہا۔پھر جب دوسری شرط پائی گئی تو دوسری طلاق ہو گئی اور میاں بیوی کے اکٹھے رہنے کی وجہ سے رجوع ہو گیا اور شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہا  پھر جب تیسری شرط پائی گئی تو تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ۔ لہذا اب عورت کہیں اور نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے ۔  نیز اگر تعلیق والی بات غلط ہو تو مذکورہ خلع شرعاً درست  ہے کیونکہ لڑکی کے والد کے بیان کے مطابق اول تو شوہر اس خلع پر رضامند تھا اور اگر رضامند نہیں تھا تو خلع کے کیس میں تنسیخ ِ نکاح کی شرعی بنیاد یعنی جسمانی تشدد موجود ہے۔

فتاوی عالمگیری(1/420) میں ہے:

وإذا أضافه إلى الشرط ‌وقع ‌عقيب ‌الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق

رد المحتار (449/4) میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

 

مواہب الجلیل شرح مختصر الخلیل (228/5) میں ہے:

 (ولها التطليق بالضرر) ش: قال ابن فرحون في شرح ابن الحاجب من الضرر قطع كلامه عنها وتحويل وجهه في الفراش عنها وإيثار امرأة عليها وضربها ضربا مؤلما.

شرح الكبير للدردير مع حاشیہ الدسوقى (345/2) میں ہے:

(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من وعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر……….

(قوله ولها التطليق بالضرر) أي لها التطليق طلقة واحدة و تكون بائنة كما فى عبق

بدائع الصنائع (2/334) میں ہے:

فإن تركت النشوز، وإلا ضربها عند ذلك ضربا غير مبرح، ولا ‌شائن، والأصل فيه قوله عز وجل: واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن واهجروهن في المضاجع واضربوهن

حیلہ ناجزہ (104 ) میں ہے:

ان كل طلاق اوقعه الحاكم فهو بائن الاطلاق المولى و المعسر وسواء أوقعه الحاكم بالفعل او جماعة المسلمين او امراها به” انتهى

فتاوی عثمانی (462/2) میں ہے:

 یکطرفہ خلع شرعا کسی کے نزدیک بھی جائز اور معتبر نہیں، تاہم اگر کسی فیصلے میں بنیاد فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یکطرفہ فیصلہ درست نہ ہو گا تاہم فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہو گیا ہے اور عورت عدت طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کر سکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved