• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

طلاق میں میاں بیوی کا اختلاف

استفتاء

ميرے شوہر نے مجھے دو سال پہلے دو طلاقیں دی تھیں پھر ہمارا آپس میں رجوع ہوگیا پھر اس کے بعد دوبارہ ہماری لڑائی ہوئی تو انہوں نے مجھے تیسری طلاق بھی دی۔ تیسری طلاق کے الفاظ یہ تھے کہ” ****” میں نے تجھے تیسری طلاق بھی دی”   سوال یہ ہے کہ ہمارا نکاح باقی ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: (۱) کیا دونوں طلاقیں اکٹھی دی تھیں؟ ان طلاقوں کے الفاظ کیا تھے؟ (۲) صلح کتنے دن بعد ہوئی اور صلح سے پہلے کتنے حیض گزرے تھے؟ (۳) شوہر کا رابطہ نمبر مہیا کریں۔

جواب وضاحت:  دونوں طلاقیں زبانی اور اکٹھی دی تھیں اور طلاق کے الفاظ یہ تھے “میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی” (۲) ایک ماہ بعد صلح ہوگئی تھی یعنی ایک حیض گزرا تھا۔(۳) *******

شوہر کا بیان حلفی:

میں****ولد**** آپ سے مخاطب ہوں کہ میں نے اپنی بیوی **** کو طلاق کا لفظ  صرف غصے میں دو بار ضرور کہا ہے مگر تین بار نہیں کہا ۔ میری بیوی **** مجھ سے علیحدہ ہونا چاہتی ہے اور اپنے دوسری سہیلیوں کو ملا کر اس بات پر اٹل ہے کہ میں نے اس کو تین طلاقیں دی ہیں حالانکہ وہ کسی بھی لڑائی میں میرے پاس موجود نہیں  تھی اور محلے میں بھی لوگوں کو جھوٹ بتا رہی ہے کہ انہوں نے  مجھے تین طلاقیں دی ہیں لہٰذا  میں پھر بھی اس بات کی اور اپنی بات کی سچائی  کے لیے خدا کو حاضر وناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں نے تین طلاقیں نہیں دی ہیں۔ یہ صرف جھوٹ بول کر مجھ سے علیحدہ ہونا چاہتی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ   میری بیوی  بننے سے پہلے بھی گھر سے  بھاگ کر آئی تھی اور اپنے شوہر اور تین بچوں کو چھوڑ کر آئی تھی بغیر کسی وجہ کے اور اب  اسی  طرح میرے بھی اس سے تین بچے ہیں اور یہ کسی کے کہنے پر مجھے چھوڑ رہی ہے اور میں یہ  چاہتا ہوں کہ یہ میرے بعد کسی اور کی زندگی اور بچے خراب نہ کرے۔ میری  لڑائی اس کے ساتھ صرف ایک بات پر ہوئی تھی جو ایک غیرت  مند آدمی برداشت نہیں کرسکتا یہ مجھ سے کافی عرصہ سے الگ ہے، میاں بیوی والا  کوئی رشتہ نہیں تھا، نہ مجھے قریب آنے دیتی تھی مگر پھر بھی اس کو حمل ہوگیا اور اس نے میرے ڈر کی وجہ سے ضائع کروادیا مگر مجھے کسی اور سے معلوم ہوگیا تھا جب میں نے اپنی بیوی سے پوچھا تو اسی بات پر لڑائی ہوئی۔

بیوی کا بیان حلفی:

میں اللہ کو حاضر وناظر جان کر اقرار کرتی ہوں کہ میرے شوہر نے ایک سال پہلے گواہوں کی موجودگی میں  مجھے  دو دفعہ زبانی کلامی طلاق دی تھی  اور دوبارہ (تیسری ) طلاق بھی دیدی۔ میں اور میرے شوہر اپنا مسئلہ لیکر دارالتقویٰ آئے تھے اور سارا مسئلہ بتایا تھا لیکن وہاں لکھ کر نہیں آئے تھے اور آپ نے کہا تھا  کہ تحریری بیان دیں تو ہم   آپ کو فتویٰ جاری کروادیں گے میں نے جو بھی آپ سے کہا وہ سچ ہے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے۔ میں **** یہ چاہتی ہوں کہ آپ ان تمام معاملات کو فتویٰ کی صورت میں جاری کردیں۔ باقی شوہر نے جو بھاگ کر  آنے کی بات کی ہے تو میں سابقہ  شوہر سے خلع لے کر آئی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً بیوی اپنے بیان میں سچی ہے تو  بیوی کے حق میں  تین طلاقیں  واقع ہوچکی ہیں جن  کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہناجائز نہیں۔

نوٹ: اگر بیوی جھوٹ بول رہی ہے تو اس فتوے کی وجہ سے اس کے لیے آگے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا اور وہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہوگی۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے 2 سال پہلے دو طلاقیں دے دی تھیں تو اس سے دو رجعی طلاقیں واقع ہوگئیں جن کے بعد عدت میں رجوع کرنے سے نکاح قائم رہا پھر اس کے بعد تیسری مرتبہ بیوی کے بیان کے مطابق شوہر نے  بیوی کا نام لیکر یہ جملہ کہا کہ” میں نے تجھے تیسری  طلاق بھی دی”  تو اس سے بیوی کے حق میں تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی کیونکہ عورت طلاق کے معاملے میں قاضی کی حیثیت رکھتی ہے یعنی  اگر  عورت شوہر سے طلاق کے الفاظ خود سن لے تو عورت کے لیے اس پر عمل کرنا  ضروری ہوتا ہے چونکہ مذکورہ صورت میں عورت کا مؤقف یہ ہے کہ  شوہر نے تیسری مرتبہ یہ جملہ کہا تھا کہ “میں نے تجھے تیسری طلاق بھی دی” جوکہ طلاق کے لیے صریح ہے اس لیے اس سے بیوی کے حق میں تیسری طلاق بھی واقع ہوچکی ہے۔

بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:

‌وأما ‌الطلقات ‌الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

بدائع الصنائع(3/101) میں ہے:

أما ‌الصريح فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله: ” أنت طالق ” أو ” أنت الطلاق، أو طلقتك، أو أنت مطلقة ” مشددا، سمي هذا النوع صريحا؛ لأن الصريح في اللغة اسم لما هو ظاهر المراد مكشوف المعنى عند السامع من قولهم: صرح فلان بالأمر أي: كشفه وأوضحه، وسمي البناء المشرف صرحا لظهوره على سائر الأبنية، وهذه الألفاظ ظاهرة المراد؛ لأنها لا تستعمل إلا في الطلاق عن قيد النكاح فلا يحتاج فيها إلى النية لوقوع الطلاق؛ إذ النية عملها في تعيين المبهم ولا إبهام فيها

ردالمحتار(4/449)میں ہے:

والمرأة كالقاضي ‌إذا ‌سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.

شامی(8/106) میں ہے:

قالوا لو ادعت ‌أن ‌زوجها ‌أبانها بثلاث فأنكر فحلفه القاضي فحلف، والمرأة تعلم أن الأمر كما قالت لا يسعها المقام معه، ولا أن تأخذ من ميراثه شيئا ……….. وفي الخلاصة ولا يحل وطؤها إجماعا.

فتاوی محمودیہ(13/298)میں ہے:

سوال:زید نے کہا تین مرتبہ”میں تمہیں طلاق دے چکا ہوں “زوجہ کا باپ لڑکی کو اپنے ہمراہ لے گیا،زید طلاق سے منکر ہےاورکہتا ہے کہ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ اگر تم لے گئے تو  میں طلاق دے دوں گا۔۔۔۔زوجہ الفاظ مذکور سابقہ کا خود سننا ظاہر کرتی ہےصورت مذکورہ  میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟اور نکاح جدید کس طرح ممکن ہے؟

جواب:جب عورت نے 3مرتبہ طلاق دینا خود سنا ہےتو پھر اس کے لیے زید کواپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں۔ جو جائز صورت بھی عورت کے قبضہ میں ہو زید سے بچنے کی اختیار کی جاوے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved