- فتوی نمبر: 16-111
- تاریخ: 17 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیافرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ مدارس دینیہ میں نابالغ لیکن سمجھدار بچوں سے خدمت لینا کیسا ہے ؟
عام طور پر دوقسم کی خدمت لی جاتی ہیں(1 ) مدرسے کے اجتماعی امور جیسے مدرسے کی صفائی ، بیت الخلاؤں کی صفائی ، مطبخ ومطعم کی خدمت جیسے سبزی کاٹنا ،روٹی کیلیے پیڑےبنانا ، کھاناکھلانا، برتن دھونا وغیرہ ۔
(2 ) اساتذہ کی خدمت جیسے سرمیں تیل لگانا ، اساتذہ کے کمرے اور مسند کی صفائی ، اساتذہ یا مدرسے کے مہمانوں کے دسترخوان کی خدمت ، اساتذہ کے گھروں کی خدمت مثلا گھر کا سوداسلف لانا ، بچوں کو سکول لانا ، لےجانا وغیرہ ۔یہ خدمتیں پڑھائی کےاوقات میں بھی ہوتی ہیں اور چھٹی کےاوقات میں بھی ہوتی ہیں جیسے عصر کےبعد یا جمعہ کےدن ۔کیا یہ خدمات لیناجائز ہےیانہیں؟ بعض لوگ جواز کیلیے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی خدمت کو دلیل بناتے ہیں کہ وہ نابالغ تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےخادم تھے ۔
نوٹ :اگر باقاعدہ طورپر مدرسےکی اجتماعی خدمات کاتذکرہ داخلہ فارم میں کیاگیاہو اور سرپرست کے بھی علم میں ہو اور اسکی رضامندی بھی ہوتوطالب علم سے خدمت لینا کیسا ہے؟ البتہ اساتذہ کی انفرادی خدمت کا تذکرہ صراحت تو نہیں ہے لیکن تعامل الناس تو ہے اور عرف عام کی وجہ سے سرپرست جانتے ہیں کہ طلبہ سے انفرادی خدمات بھی لی جاتی ہیں۔گزارش ہےکہ اجتماعی اور انفرادی دونوں قسم کی خدمات کا مدلل حکم بیان فرمادیں ۔جزاک اللہ خیرا
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔جو خدمات طلبہ کی دینی تربیت کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہوں وہ خدمات نابالغ طلبہ سے بھی لے سکتے ہیں خواہ وہ اجتماعی ہوں یا انفرادی، کیونکہ دینی تربیت بھی پڑھائی کا حصہ ہے۔
2۔جو خدمات دینی تربیت کے لیے ضروری نہ ہوں اور نا بالغ طلبہ کے اولیاء (سرپرستوں)کی طرف سے صراحۃ یا دلالۃ ان خدمتوں کی اجازت ہو تو ایسی خدمات بھی نابالغ طلبہ سے لے سکتے ہیں خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی بشرطیکہ وہ انکے تحمل سے زیادہ نہ ہوں۔نیز مذکورہ خدمات پڑھائی کے اوقات میں بھی لی جاسکتی ہیں، لیکن پڑھائی کے اتنے اوقات صرف نہ کیے جائیں کہ جس سے پڑھائی پر معتد بہ (اچھا خاصا)فرق پڑے۔
فتاوی محمودیہ 116/20 میں ہے:
ان(نابالغ بچوں) کی تربیت کے لیے اور سلیقہ سکھانے کے لیے پانی منگانا اور اس پانی سے وضوء کرنا اور اس وضوء سے نماز پڑھنا سب درست ہے ۔حضرت انس ؓ سے وقتا فوقتا حضور ﷺ کام لیتے اور اس وقت وہ نابالغ تھے ۔حضرت ابن عباس ؓ نے حضور ﷺ کے وضوء کے لیے پانی لاکر دیا جبکہ وہ نابالغ تھے۔لیکن بچوں پر زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہیےجس سے وہ اکتا کر پریشان ہوجائیں، خاص کر کہ یہ صورت کہ وہ پنکھا جھلتے رہیں اور استاد آرام سے سوتے رہیں اس سے غالب گمان یہ ہے کہ وہ اکتا جائیں گے۔
احسن الفتاوی 216/8 میں ہے:
والدین و اولیاء کی طرف سے (نابالغ طلبہ سے)دلالۃ کام لینے کی اجازت ہوتی ہے، اس لیے کام لینا جائز ہے ۔ بلکہ ان کی دینی تربیت کے لیے کسی قدر کام لینا ضروری ہے۔البتہ ان دو باتوں کا خیال رکھنا چاہیے :(1)تعلیم میں زیادہ حرج واقع نہ ہو(2)استطاعت و طاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved