- فتوی نمبر: 5-192
- تاریخ: 08 اکتوبر 2012
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
امام مسجد اور مدرس القرآن الکریم کے لیے راتب شہر لینا ازروئے شرع کیسا ہے؟
نیز یہ کہ موجودہ صورت حال کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا حضور ﷺ اور ادوار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین میں اس کی کوئی نظیر ملتی ہے؟ عامتہ المسلمین کو ایک جماعت نے دریں مسئلہ میں الجھایا ہوا ہے کہ” ایسی اجرت والی امامت اور تدریس ناجائز اور حرام ہیں اور ایسے امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا بھی جائز نہیں۔ اور شریعت میں اس کا کہیں ثبوت نہیں”۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے دور میں تعلیم قرآن و امامت اور اسی طرح دیگر عبادات پر اجرت لینا ناجائز تھا، جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے:
عن أبي الدرداء أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال من أخذ قوساً على تعليم القرآن قلّده الله قوساً من نار.( بیہقی، بحوالہ فہم حدیث: 3/ 185 )
ترجمہ: حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے قرآن سکھانے پر ( اجرت میں ) کوئی کمان لی تو ( قیامت کے دن ) اللہ تعالیٰ اس کے گلے میں آگ کی کمان ڈالیں گے۔
عن عثمان بن أبي العاص رضي الله عنه قال يا رسول الله اجعلني إمام قومي قال أنت أمامهم و اتخذ مؤذنا لا يأخذ على الأذان أجراً.( ابوداؤد و ترمذی ، بحوالہ فہم حدیث: 3/ 186 )
ترجمہ: حضرت عثمان بن ابوالعاص رضی ا للہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے میری قوم کا ( نماز کا ) امام مقرر فرمادیں آپ ﷺ نے فرمایا ( ٹھیک ہم تم کو مقرر کرتے ہیں لہذا آئندہ سے ) تم اپنی قوم کے امام ہو اب تم ( اپنی امامت پر کچھ اجرت نہ لینا اور) ایسے کو مؤذن مقرر کرنا جو اذان کہنے پر کچھ اجرت نہ لے۔
اور اس کی وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں امیر اور غریب سب ہی دین کے امور میں چست تھے امیروں کو بھی اذان دینے اور نماز پڑھانے سے عار نہیں تھا، بلکہ قرآن پڑھانا، حفظ کرانا اور دین کی تعلیم دینا، اذان کہنا اور امامت کرانا معاشرے میں یہ سب کام باعث صد افتخار تھے۔ بعد میں حالات بدلتے گئے ، پہلی جیسی چستی نہ رہی اور پراناشوق و ذوق کمزور پڑتا گیا اور ڈر ہوا کہ حالات اسی طرح رہے تو نماز باجماعت کا نظام اور دین کی تعلیم کا نظام معطل ہوجائےگا تو متاخرین نے یہ سامنے رکھتے ہوئے کہ دین کے علم کی حفاظت فرض ہے اور ہر قریب کے علاقہ میں ایک بڑے عالم کا ہونا فرض کفایہ ہے اور نماز باجماعت کا انتظام شعائر اسلام میں سے ہے اور ان سب کی حفاظت اب اسی پر موقوف ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوں جو مستقل ان کاموں میں وقت دیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب معاشرہ ان کی مالی کفالت کرے خواہ وہ وظیفہ کی صورت میں ہو یا تنخواہ کی صورت میں ہو۔ یہ تنہا اجتہاد ہی نہیں ہے بلکہ تابعین کا عمل بھی اس بارے میں موجود ہے۔
عن أبي غيلان قال بعث عمر بن عبد العزيز يزيد بن أبي مالك الدمشقي و الحارث بن يمجد الأشعري يفقهان الناس في البدو و أجرى عليهما رزقاً فأما يزيد فقبل و أما الحارث فأبى أن يقبل فكتب إلى عمر بن عبد العزيز بذلك فكتب عمر انا لا نعلم بما صنع يزيد بأسا و أكثر الله فينا مثل الحارث بن يمجد.(کتاب الاموال لابی عبید )
ترجمہ: ابو غیلان کہتے ہیں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے دیہاتوں میں لوگوں کو دین کی تعلیم دینے کے لیے یزید بن ابی مالک اشجعی اور حارث بن یمجد کو بھیجا اور ان کے لیے وظیفہ جاری فرمایا ( تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہیں ) یزید نے تو اس وظیفہ کو قبول فرما لیا البتہ حارث نے قبول نہیں کیا۔ یہ بات عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو لکھی گئی تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ یزید نے وظیفہ قبول کیا تو ہم اس میں کچھ برائی نہیں سمجھتے اور حارث نے قبول نہیں کیاتو ( یہ بڑی فضیلت کی بات ہے ) اللہ تعالیٰ ہم میں حارث جیسے لوگوں کی کثرت کردیں۔
اس اہتمام میں مذکورہ بالا احادیثوں کی مخالفت نہیں ہے ، کیونکہ جن حالات میں اجرت نہ لینے کا حکم دیاگیا تھا وہ حالات باقی نہ رہے ۔ بدلے ہوئے حالات میں کتنے لوگ ہیں جو اپنے کام کاج اور کاروبار میں بھی لگیں اور پھر روزانہ پانچ دفعہ وقت میں مسجد میں آکر اذان و جماعت کا نظام بھی قائم رکھیں اور کتنے ہیں جو قرآن پاک اور دین کی تعلیم میں سارا دن لگا کر پھر اپنی روزی بھی کما سکیں۔ غرض متاخرین کا قول مذکورہ بالا حدیثوں کے مخالف نہیں۔ اگر پہلے جیسے حالات پھر پیدا ہوجائیں تو حدیث کا ظاہری حکم خود بخود بحال ہوجائے گا۔ اور اب بھی اگر کسی کے پاس آمدنی کے دیگر وسائل ہوں اور وہ ان کاموں پر اجرت نہ لے تو یہی مستحب ہے۔ مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوالات کا جواب یہ ہے:
۱۔ امام مسجد اور مدرس القرآن الکریم کے لیے موجودہ دور میں مجبوری اور ضرورت کی وجہ سے راتب شہری لینا جائز ہے۔
۲۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں تو اس کی نظیر نہیں ملتی البتہ تابعین رحمہم اللہ کے دور میں اس کی نظیر ضرورملتی ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے حوالے سے گذرا۔
۳۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں کہ اجرت والی امامت اور تدریس ناجائز اور حرام ہے اور ایسے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔ بلکہ درست بات وہی ہے جو پہلے ذکر ہوئی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved