• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تعلیق میں تخصیص کی نیت کرنا

استفتاء

میں نے اپنی بیوی کو ایک دفعہ کہا "میں تمہیں دیتا ہوں”۔ اس کے بعد ایک اور موقعہ پر یہ کہا "اگر تم آئندہ سے مجھے بتائے بغیر بازار گئی تو تم کو طلاق ہے”۔ بیوی بازار بکثرت جاتی تھی اس کی عادت کو چھڑوانا مقصود تھا، یہ الفاظ بولتے ہوئے میرے ذہن میں اپنے محلے کا قریبی بازار تھا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ بیوی کو یاد نہیں رہا اور وہ اپنے بھائی کے ساتھ **** پر کارپٹ کی دکان پر چلی گئی، اس روڈ پر کارپٹ فوم اور فرنیچر وغیرہ کی دکانیں ہیں، یہ روڈ بھی شاہراہ ہے، یہاں اشیاء ضرورت خاص طور سے کھانے پینے اور پنساری وغیرہ کا بازار نہیں، البتہ ہمارے گھر اور اس دکان کے درمیان چوبرجی کا علاقہ ہے، یہاں سے گذر کر گئی تھی، جب وہاں جا کر بیوی کو یاد آیا تو اس نے مجھے فون کیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

نوٹ: 1۔ بیوی پہلے بھی اکیلی بازار نہیں جاتی تھی بلکہ بچوں کے ہمراہ جاتی تھی۔

2۔  دفعہ کے واقعہ میں میرا خیال یہی ہے کہ میں نے ایک طلاق دی ہے، جبکہ بیوی کا شک کے درجے میں یہ خیال ہے کہ شاید میں نے دو دفعہ دی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، پہلی طلاق تو واضح ہے، دوسری طلاق کا وقوع بغیر بتائے بازار جانے پر موقوف تھا، *** سے لے کر*** تک مسلسل مختلف انواع کی دکانیں موجود ہیں جو عرفاً بازار کے لیے کافی ہیں، اور عورت چونکہ بتائے بغیر اس جگہ چلی گئی ہے، اس لیے دو طلاق بھی واقع ہو گئی ہے۔

باقی رہا یہ کہ شوہر کے ذہن میں اپنے علاقے کا بازار تھا، اس سلسلے میں قضاءً شوہر کی بات تسلیم نہیں کی جائے گی۔

نية تخصيص العام تصح ديانة لا قضاءً. (رد المحتار)

بات چونکہ عورت کے سامنے کی گئی ہے۔ اور المرأة كالقاضي. فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved