• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

طالبات و معلمات کے لیے حیض و نفاس کے حالت میں تلاوت کا حکم

  • فتوی نمبر: 5-376
  • تاریخ: 02 اپریل 2013
  • عنوانات:

حائضہ اور نفاس والی کے لیے قران مجید پڑھنے کا حکم ([1]):

([1])  حیض و نفاس کی حالت میں تلاوت کے حکم کے بارے میں ایک پمفلٹ اور بن باز کا فتویٰ

ایک رائے یہ ہے کہ قران مجید کو چھونا اور تلاوت دونوں جائز نہیں۔ دوسری رائے کہ تلاوت جائز ہے۔

عام لوگ کس مسئلہ پر عمل کریں؟ زیادہ قوی رائے کیا؟ بالخصوص حفظ، تجوید، حدر و مشق کی معلمات و طالبات کیا کریں؟ جبکہ کلاس میں ہر فکر کی طالبات موجود ہوں۔ اور یہ کورس بھی سال، دو سال ( مکمل قران)ٍ کے عرصہ میں مکمل کرنا ہو۔ امتحان کے دوران جو عورت حائضہ ہے اس کے لیے کتنی گنجائش ہے۔ جبکہ الگ امتحان کی صورت میں طالبات کا آپس میں مقابلہ ختم ہوجاتا ہے۔ اور ایسی صورت میں نا انصافی بھی ہے کیونکہ بعد میں وقت بھی زائد ملتا ہے اور ممتحن بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں معلمہ کس رائے پر عمل کرے اور کروائے؟ اس مسئلہ میں چاروں

([1])  حیض و نفاس کی حالت میں تلاوت کے حکم کے بارے میں ایک پمفلٹ اور بن باز کا فتویٰ

حیض و نفاس کے مسائل

  • حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ’’ جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو اور جب ختم ہوجائے تو غسل کرلو ( اور نماز پڑھو) ‘‘۔ نسائی
  • حائضہ نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھ سکتی ہے۔
  • حیض شروع ہوتے ہی روزہ ختم ہوجاتا ہے خواہ سورج غروب ہونے سے ایک لمحہ پہلے ہی ( حیض) کیوں نہ آئے۔
  • حیض کی وجہ سے روزہ ختم ہونے کے بعد کھانا پینا جائز ہے۔ اس روزہ کی قضا ضروری ہے۔
  • حائضہ کے لیے روزہ کی قضا ہے نماز کی نہیں۔
  • حائضہ پاکیزگی کی حالت میں جس نماز کے اول یا آخر وقت میں سے ایک مکمل رکعت ادا کرنے کا وقت پالے تو اسے اس وقت کی قضا نماز ادا کرنی چاہیے۔
  • حیض سے پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے بیجا عجلت اور بیجا تاخیر سے کام نہیں لینا چاہیے۔
  • غسل حیض میں تاخیر پر قضا نمازیں ادا کرنی چاہیے۔
  • حائضہ قران مجید کو ہاتھ نہ لگائے اگر پکڑنا ضروری ہوتو صاف کپڑے سے پکڑے۔
  • حائضہ کو مسلسل قران مجید کی تلاوت کرنا منع ہے البتہ ایک ایک آیت توڑ کر پڑھ سکتی ہے۔

شیخ بن باز  کافتویٰ

جنبی، حائضہ اور نفاس والی عورت کے لیے قران پڑھنے کا حکم؟

سوال: ہم گرلز کالج کی طالبات کے لیے قران کریم کا ایک پارہ حفظ کرنا ضروری ہے، کبھی کبھی امتحان کا وقت ماہواری کے دنوں میں آجاتا ہے تو کیا یہ جائز ہے کہ قران کی سورت کاغذ پر لکھ کر یاد کی جائے؟

جواب: علماء کرام کا صحیح قول یہ ہے کہ حیض اور نفاس والی عورت کے لیے بغیر مصحف چھوئے قران پڑھنا جائز ہے، اس لیے کہ عدم جواز کی کوئی دلیل ثابت نہیں ہے۔ دونوں قسم کی عورتیں کسی پاک کپڑے کے ذریعے قران کو پکڑ کر پڑھ سکتی ہیں۔ اس طرح کاغذ پر لکھ کر ضرورت کے وقت اس کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے۔ البتہ جنبی قران نہیں پڑے گا یہاں تک کہ غسل کرلے۔ اس لیے کہ صحیح حدیث عدم جواز پر دلالت کرتی ہے۔ حائضہ اور نفاس والی عورتوں کو جنبی پر قیاس نہیں کیاجا سکتا اس لیے کہ ان کی مدت طویل ہوتی ہے۔ لیکن جنبی تو جنابت کے سبب سے فارغ ہوتے ہی فوراً غسل کرسکتا ہے اللہ ہی نیک توفیق دینے والا ہے۔ ( فتاویٰ: 73)

کیا حائضہ عورت عرفات میں کتاب کی مدد سے دعائیں پڑھ سکتی ہے؟

سوال: کیا حائضہ عورت عرفہ کے دن دعاؤں کی کتاب پڑھ سکتی ہے جبکہ اس میں قران کریم کی آیات بھی ہوتی ہیں؟

جواب: حیض اور نفاس والی عورت مناسک حج سے متعلق لکھی گئی کتابوں میں موجود دعائیں پڑھ سکتی ہیں، بلکہ صحیح قول کے مطابق قران بھی پڑھ سکتی ہیں۔ اس لیے کہ کوئی ایسا صحیح اور صریح نص موجود نہیں جو حیض اور نفاس والی عورت کو قران پڑھنے سے روک رہا ہو، صرف جنبی کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت آتی ہے کہ حالت جنابت میں قران نہ پڑھے۔ حیض اور نفاس والی عورت کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت آتی ہے کہ ’’ کہ حائضہ اور جبنی قران کا کوئی بھی حصہ نہ پڑھے‘‘۔ لیکن  یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اسے اسماعیل بن عیاش نے حجازی راویوں سے روایت کیا ہے اور جب وہ حجازیوں سے روایت کرتے ہیں تو ( محدثین کے نزدیک) ضعیف ہوتے ہیں لیکن وہ قران کو بغیر چھوئے زبانی پڑھے گی۔ البتہ جنبی جب تک غسل نہ کرلے اس کے لیے قران پڑھنا ( زبانی یا مصحف کی مدد سے) جائز نہیں۔ اور ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ جنبی کا وقت مختصر ہوتا ہے، اس لیے کہ مباشرت سے فراغت کے بعد فوراً غسل کرسکتا ہے، اور معاملہ اس کے اختیار میں ہے، جب چاہے غسل کرسکتا ہے، اگر پانی کے استعمال سے عاجز ہو تو تیمم کر کے نماز اور قران پڑھ سکتا ہے۔ لیکن حیض اور نفاس والی عورت کا معاملہ  اس کے اختیار میں نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اور ماہواری میں کئی دن لگ جاتے ہیں، اور نفاس کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اس لیے ان دونوں کو قران پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ بھول نہ جائیں اور قران اور قراءت کی فضلیت اور احکام شریعت کو سیکھنے سے محروم نہ رہیں۔ معلوم ہوا کہ ان کے لیے ایسی کتابوں کا پڑھنا بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا جن میں قران و حدیث کی مخلوط دعائیں ہوتی ہیں۔ علمائے کرام کے دونوں اقوال میں یہی صائب اور صحیح ہے۔ (فتاویٰ 79، از شیخ بن باز)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حائضہ کے لیے قرآن پاک پڑھنے کے بارے میں دو رائے ہیں:

پہلی رائے:

حائضہ کے لیے قرآن پاک پڑھنا جائز  نہیں ۔

یہ رائے جمہور صحابہ کرام ؓ، تابعین ، تبع تابعین رحمہم اللہ اور ائمہ ثلاثہ امام ابو حنیفہ ؒ ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ کی ہے اور امام مالک  ؒ کی ایک روایت بھی اسی کے مطابق ہے۔ چنانچہ حدیث کی معروف کتاب ترمذی شریف میں ہے:

و  هو قول أكثر أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم  و التابعين و من بعدهم مثل سفيان الثوري و الشافعي و أحمد قالوا لا تقرأ الحائض و لا الجنب من القرآن شيأ إلا طرف الآية و الحرف و نحو ذلك و رخصوا للجنب و الحائض في التسبيح و التهليل. (1/ 35 )

ترجمہ: صحابہؓ، تابعین، تبع تابعین رحمہم اللہ میں اکثر اہل علم اور سفیان ثوری، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل، امام اسحاق رحمہم اللہ کا قول یہ ہے کہ حائضہ اور جنبی قرآن میں سے کچھ نہ پڑھیں مگر آیت کا کچھ حصہ یا ایک آدھا حرف۔ اور اس کی دلیل میں امام ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے:

عن ابن عمر رضي الله  عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال لا تقرأ الحائض و  لا الجنب شيئاً من القرآن. ( 2/ 34)

ترجمہ: حضرت ابن عمر ؓ بنی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ حائضہ اور جنبی قرآن میں سے کچھ نہ پڑھیں۔

نوٹ: بعض لوگوں نےاس حدیث کی سند میں مذکور ایک راوی اسماعیل بن عیاش کی وجہ سے  اس حدیث کو ضعیف کہا ہے لیکن اس کا  ایک جواب تو   خود امام ترمذیؒ نے اپنی کتاب ترمذی میں ان الفاظ میں دے دیا ہے:

قال أحمد بن حنبل اسماعيل بن عياش أصلح من بقية.

ترجمہ: امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ امام احمدبن حنبل ؒ نے فرمایا کہ اسماعیل بن عیاش راوی بقیہ نامی راوی سے زیادہ صالح ہے۔ ( اور بقیہ نامی راوی کی حدیث کو امام مسلم ؒنے اپنی کتاب مسلم میں لیا ہے)

دوسرا جواب یہ ہے کہ اسماعیل بن عیاش راوی کی وجہ سے حدیث اس وقت ضعیف قرار پاتی ہے جب  اسماعیل بن عیاش کے علاوہ کوئی اور راوی اس کو نقل کرنے والا نہ ہو۔ جبکہ اس روایت کو نقل کرنے والے اور حضرات بھی ہیں۔ چنانچہ ترمذی کی شرح معارف السنن میں ہے:

و حديث الباب حجة للجمهور و ضعفوه باسماعيل بن عياش، و وثقه الجمهور في روايته عن أهل بلده الشام و ليس هذا منهم و موسى بن عقبه حجازي، و قال ابن أبي حاتم عن أبيه: حديث إسماعيل بن عياش هذا خطأ و إنما هو عن ابن عمر  قوله، كذا في التلخيص، و وثقه ابن معين و يعقوب بن سفيان و يزيد بن هارون مطلقاً بل فضله ابن هارون على سفيان الثوري فقال: ما رأيت أحفظ من إسماعيل بن عياش ما أدري ما سفيان الثوري ؟ و لو سلم ضعف الحديث فله شاهد من حديث علي عند أصحاب السنن، و صححه الترمذي، و ابن  السكن، و ابن حبان، و عبد الحق، و البغوي، و لا ينزل عن الحسن بحال قال: كان رسول الله صلى الله عليه و سلم لا يحجبه أو لا يحجزه عن القرآن شيئ ليس الجنابة، و ضعفه بعض الحفاظ و لكن الحافظ ابن حجر يقول: و الحق أنه من قبيل الحسن يصلح للحجة. قال الراقم: و ليس إسماعيل بن عياش متفرداً بروايته عن موسى بن عقبة بل تابعه المغيرة بن عبد الرحمن عن موسى بن عقبة عند الدار قطني،  و يروي عن المغيرة عبد الملك بن مسلمة و وثقه الدار قطني في سننه و كذا صحح طريق المغيرة الحافظ اليعمري كما في التلخيص ( ص: 51) فالإسناد إذن جيد و المتابعة قوية لكن الحافظ يرد على الحافظ اليعمري و الله أعلم. ( 1/ 446 )

دوسری رائے:

حائضہ کے لیے بغیر چھوئے قرآن پاک پڑھنا جائز ہے۔

یہ رائے ائمہ اربعہ میں صرف امام مالک ؒ کی اور بعض دیگر حضرات کی ہے۔ چنانچہ مالکیہ کی معروف کتاب مناہج التحصیل میں ہے:

و اختلف في قراءة القرآن ظاهرا على قولين و المشهور جوازها. ( 1/ 175 )

ترجمہ: حائضہ کے زبانی ( بغیر چھوئے) قرآن پڑھنے میں دو قول ہیں، مشہور قول جواز کا ہے۔

مواہب الجلیل من ادلة  خلیل میں ہے:

قال البغوي و روي عن ابن  عمر رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال لا تقرأ الحائض و  لا الجنب شيئاً من القرآن قال البغوي و جوّز مالك للجنب أن يقرء بعض آية و جوّز للحائض قراءة القرآن لأن زمان حيضها قد يطول  فتنسى. ( 1/ 87)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

يحرم بالحيض و النفاس ما يحرم بالجنابة و هي سبعة أمور: الصلوات كلها … و قراءة القرآن لكن  أجاز المالكية على المعتمد للحائض و النفساء قراءة القرآن عن ظهر قلب إلا بعد انقطاع الدم و  قبل غسلها سواء أكانت جنبا حال حيضها أو نفاسها أم لا. ( 1/  624 )

ہمارے نزدیک پہلی رائے زیادہ قوی ہے۔ اس کی چند وجوہ  ہیں:

1۔ یہ رائے  اکثر اہل علم کی ہے۔

2۔ اس رائے کی دلیل میں حدیث بھی موجود ہے۔ جبکہ  دوسری رائے کی دلیل میں عقلی  دلائل کا تذکرہ تو ہے لیکن اس کی حدیث میں کوئی دلیل نہیں۔

3۔ اس رائے میں احتیاط اور قرآن پاک کا احترام بھی ہے۔

4۔  اس مسئلہ میں کوئی ایسی مجبوری بھی نہیں کہ امام  مالک ؒکے  قول پر فتویٰ دیا جائے۔

5۔ بن باز خود حنبلی ہیں لیکن انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ کا قول لیا ہے۔

اس لیے مدارس والوں کو چاہیے کہ وہ اپنا تعلیمی پروگرام پہلی رائے کو پیش نظر رکھتے ہوئے بنائیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved