استفتاء
بنات کے مدرسے میں ملازم مدرس جماعت میں جاتا ہے تو طالبات پردے کے پیچھے سے ایک آواز ہو کر سلام کرتی ہیں۔
1۔ ان بچیوں کا سلام کرنا کیسا ہے؟
2۔ اور سلام کا جواب دینا کیسا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1-2۔ کسی طالبہ کو اپنے استاد سے کوئی ضروری بات کرنی ہو تو وہ اونچی آواز سے سلام کر سکتی ہے اور استاد بھی اونچی آواز میں جواب دے سکتا ہے۔ طالبات کے سبق پڑھنے میں سب کے سلام کرنے کی ضرورت نہیں۔ زیادہ سے زیادہ سبق پڑھنے والی طالبہ سلام کر سکتی ہے اور استاد اس کے سلام کا جواب دے سکتا ہے۔ سب طالبات کا سلام کرناچونکہ بلا ضرورت ہے اس لیے طالبات اس طریقے سے سلام کرنے سے پرہیز کریں اور استاد اس طرح سلام کرنے سے منع بھی کرے اور اگر اس کے منع کرنے کے باوجود منع نہ ہوں تو وہ ان کے سلام کا جواب اونچی آواز سے نہ دے۔
فتاویٰ شامی (9/608-609) میں ہے:
وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة ولا يكلم الأجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا. انتهى.
قال الشامي تحت قوله: (وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزا بل شابة لا يشمتها، ولا يرد السلام بلسانه قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولا، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس اهـ.
وفي الذخيرة : وإذا عطس فشمتته المرأة فإن عجوزا رد عليها وإلا رد في نفسه ا هـ وكذا لو عطست هي كما في الخلاصة.
قال الرافعي تحت قوله: وكذا الرجل إذا سلم على امرأة أجنبية… الخ ليس المراد به عكس الحكم السابق بمعنى أنها إذا كانت عجوزاً لا ترد وإذا كانت شابة ترد، فإنه خلاف ما يعطيه التشبيه وخلاف ما يفيد ما بعده بل المراد به العكس بين العجوز و الشابة بمعنى عدم التساوي بينهما في الحكم وأن الشابة لا ترد والعجوز ترد……………….. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved