• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تنخواہ میں تاخیر ہونے پر کم تنخواہ لینا

استفتاء

ہم سعودیہ عرب میں ایک کمپنی کے ساتھ کام کرتے ہیں فی گھنٹہ 20 ریال کے حساب سے ہماری تنخواہ ہے،لیکن یہ تنخواہ  بہت (تقریبا چار سے پانچ ماہ تک)لیٹ  ہو جاتی ہے، اب کچھ ملازمین  نے جلدی تنخواہ وصول کرنے کا یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ اپنی تنخواہ سے کچھ سپلائر(کمپنی اور ملازمین کے درمیان مڈل مین) سے وصول کر لیتے ہیں یعنی فی گھنٹہ 20 ریال کے بجائے  15 ریال سپلائر سے لے لیتے ہیں اور سپلائر بعد میں کمپنی سے فی گھنٹہ 20ریال وصول کر لیتا ہے،اب سوال یہ ہے کہ سپلائر کو پانچ ریال کا جو فائدہ ہوا  ہے وہ شرعا درست ہے یا نہیں؟

تنقیح:وہاں ترتیب یہ ہے کہ کمپنی سے ملازمین کا براہ راست معاملہ نہیں ہوتا درمیان میں سپلائر ہوتے ہیں کمپنی سپلائر سے معاملہ کرتی ہے کہ اتنے ملازمین درکار ہیں اور ہم تمہیں اس حساب سے اجرت دیں گے ، وہ سپلائر آگے ملازمین سے خود معاملہ کرتا ہے اور اپنا نفع رکھ کر ان سے  اجرت طے کرتا ہے اور انہیں خود دیتا ہے لیکن چونکہ اس نے کمپنی سے آنے والے پیسوں میں سے ہی دینے ہوتے ہیں اور کمپنی سے لیٹ ہوجاتے ہیں اس لیے ملازمین کو جب ضرورت ہوتی ہے اور وہ زیادہ تقاضا کرتے ہیں تو پھر سپلائر یہ معاملہ کرتا ہے۔ یہ وہاں کافی مسئلہ ہے بہت سے ملازمین کو پیسے چاہیے ہوتے ہیں اور انہیں مجبورا یہ معاملہ کرنا پڑتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مجبوری کی وجہ سے ملازمین کے لیے یہ معاملہ کرنے کی گنجائش ہے ،البتہ سپلائر کے لیے اس طرح ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں چونکہ ملازمین کا اصل معاملہ سپلائر سے طے ہوتا ہے یعنی وہ سپلائر کے اجیر ہوتے ہیں اس لیے ملازمین ایسی صورت میں اس سپلائر سے جو پیسے وصول کرتے ہیں وہ گویا تنخواہ ہی وصول کرتے ہیں ،البتہ جتنے اس سپلائر کے ذمے ہوتے ہیں اس سے کم وصول کرتے ہیں اور باقی اس کو معاف کر دیتے ہیں نیز مذکورہ صورت میں چونکہ اجرت کی ادائیگی کا وقت آ چکا ہوتا ہے یعنی اگر ماہانہ اجارہ بھی ہو تو عموما مہینہ گزر چکا ہوتا ہے اس لیے مذکورہ صورت میں یہ اشکال نہ ہوگا کہ یہ ادھار کا معاملہ نقد کے ساتھ ہے جو کمی پیشی کی وجہ سے ناجائز ہونا چاہیے ،جسے حضرات فقہائے کرام عموما ضع و تعجل کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں البتہ چونکہ یہ صلح انہیں مجبوراًکرنا پڑتی ہے کیونکہ اصلاً  ملازمین سپلائر کے اجیر ہیں تو بروقت انہیں اجرت دینا سپلائر کی ذمہ داری ہے خواہ اسے کمپنی سے ملیں یا نہ ملیں نیز سپلائر کا کم پیسے دینا اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ اس کے پاس ملازموں کو اپنے پاس سے پیسے دینے کی گنجائش ہے اس لیے سپلائر کے لیے مذکورہ معاملہ کرنا جائز نہیں بلکہ اسے پوری تنخواہ ہی دینی چاہیے۔

ملتقى الأبحر (ص433)میں ہے:

الصلح عما استحق بعقد المداينة على بعض جنسه أخذ لبعض حقه وإسقاط لباقيه لا معاوضة، فلو صالح عن ألف حال على مائة حالة، أو على ألف مؤجل صح.

فتاوى عالمگیری (4/ 231)میں ہے:

رجل له على آخر ألف درهم فصالحه عنها على خمسمائة يجوز كذا في الفتاوى الصغرى.

شرح مختصر الطحاوی  للجصاص (3/ 196)میں ہے:

لو صالحه من ألف درهم له عليه، على خمس مائة: جاز.وقد وردت به السنة عن النبي صلى الله عليه وسلم في قصة كعب بن مالك حين لزم غريما له في المسجد، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: "خذ النصف، فرضي بذلك”فثبت به جواز الصلح من الألف على خمس مائة.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع(6/ 45)میں ہے:

(إما) أن صالح على مثل حقه (وإما) أن صالح على أقل من حقه(وإما) أن صالح على أكثر من حقه…………وإن صالح على أقل من حقه قدرا ووصفا جاز، ويكون حطا لا معاوضة لما ذكرنا في الدراهم، ولا يشترط القبض، ويكون مؤجلا، وإن صالح على أقل من حقه وصفا لا قدرا؛ جاز أيضا، ويكون استيفاء لعين حقه أصلا، وإبراء له عن الصفة فلا يشترط القبض، ويجوز حتى لا يبطل بالتأجيل أو تركه، ويعتبر رضا بدون حقه.

مسند أحمد (34/ 299 ) میں ہے:

عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، قال: كنت آخذا بزمام ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم في أوسط أيام التشريق، أذود عنه الناس، فقال: ” يا أيها الناس ۔۔۔۔ ثم قال: ” اسمعوا مني تعيشوا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنه لا يحل مال امرئ إلا ‌بطيب ‌نفس منه»

موطأ مالك (1/ 133) میں ہے:

عن ابن عمر، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌مطل ‌الغني ظلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved