• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ٹیپ کے سائز کے پورا ہونے نہ ہونے میں اختلاف

استفتاء

فریق اول کا موقف

الحمد للہ *** بھائی ہم سے عرصہ دو سال سے پیکنگ   ٹیپ لے رہے ہیں۔ وہ 2اور3  انچ کے  سائز کی ٹیپ تیار کرواتے ہیں۔ اس مرتبہ انہوں نے 3،2 اور 1.5 انچ  کا مال  تیار کروایا اور مال وصول کرتے ہوئے انہیں 1.5 انچ  کے سائز میں اشکال ہوا کہ وہ سکیل کے مطابق نہیں ہے جبکہ 2،3 بھی سکیل کے مطابق نہیں تھا۔

نوٹ:سکیل کے مطابق  ایک انچ کا سائز (25.4mm)دوانچ کاسائز (50.8mm) ڈیڑھ انچ کاسائز (mm38.1)جبکہ تین انچ کا سائز (76.2mm) ہےجبکہ ٹیپ کا سٹینڈرڈ سائز ایک انچ  (24mm)  اور  ڈیڑھ انچ  (mm 36) ہے ۔ اسی طرح  مارکیٹ  کا سائز بھی  مذکورہ بالا سائزوں سے مختلف ہے چنانچہ مارکیٹ میں رواج کے مطابق ایک انچ کا سائز  (22mm)  اور  ڈیڑھ انچ کا سائز  (mm33) ہے۔

نوٹ: عام طور پر جو شخص2انچ ،ڈیڑھ انچ  یا 3 انچ   کا  مال تیار کروائے اسے مارکیٹ کے مطابق سائز دیا جاتا ہے اور اگر کوئی عام سائز سے ہٹ کر مثلاً 12،8،5 وغیرہ کسی سائز کا مطالبہ کرے تو اس سے وضاحت طلب کرلی جاتی ہے کہ  سکیل کے مطابق  ٹیپ بنوانی ہے یا مارکیٹ کے مطابق بنوانی ہے؟

1۔کیا *** صاحب کے لیے تیار شد ہ مال وصول کرنا لازم ہے یا نہیں؟

*** صاحب کو صرف ڈیڑھ انچ والی ٹیپ کے سائز سے مسئلہ ہے حالانکہ دو انچ اور تین انچ کی ٹیپوں کے سائز بھی مارکیٹ سائز کے مطابق ہیں۔

آپ حضرات سے گذارش ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں مسئلہ  کی وضاحت کریں اور عنداللہ ماجور ہوں۔

فریق دوم کا موقف

میں آن لائن کام کرتا ہوں جس میں مختلف چیزیں بیچتا ہوں چونکہ سامان دوسرے شہروں میں بھی بھیجتا ہوں اس لئے سامان پیک کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے مجھے پیکنگ ٹیپ کی ضرورت ہوتی ہے،چونکہ یہ مولوی صاحب تھے اس لیے میں ان سے اپنی ضرورت کا سامان لیتا ہوں۔ چونکہ میں ٹیپ  مارکیٹ کا تاجر نہیں ہوں  مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ مارکیٹ میں کیا چل رہا ہے  میں یہی سمجھتا تھا کہ جتنے سائز کی ٹیپ آرڈر کی ہے اتنے سائز کی ہی ملتی ہے،اس بار مجھے ڈیڑھ انچ کے سائز کی ٹیپ درکار تھی جوکہ مارکیٹ سے نہیں مل رہی تھی اس لیے میں نے ان کو کہا کہ مجھے ڈیڑھ انچ کی ٹیپ بنادیں اور جب انہوں نے بنائی تو وہ پورے ڈیڑھ انچ کی نہیں تھی ،میں نے ان سے کہا کہ یہ تو پوری نہیں ہے اس پر انہوں نے جواب دیا کہ مارکیٹ میں یہی چلتا ہے کہ جتنے سائز کی ٹیپ کہی جاتی ہے وہ سائز سکیل کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ مارکیٹ کا الگ سائز ہوتا ہے (جس کی تفصیل فریق اول کے موقف میں مذکور ہے،مجیب)مجھے اس بات کا پتہ نہیں تھا لیکن جب میں  نے مارکیٹ میں اس کا پتہ کروایا تو انہوں نے کہا کہ ایسا ہی ہوتا ہے اب 2اور 3 انچ والی ٹیپ تو مارکیٹ میں موجود تھی اس لیے اس کے رواج ہونے یا نہ ہونے کا کہہ سکتے ہیں لیکن ڈیڑھ انچ والی ٹیپ تو مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں مارکیٹ کا کوئی خاص سائز طے ہے،جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ جب مجھے ضرورت ہی ڈیڑھ انچ کی ہے تو میں اس سے کم سائز کا کیا کروں گا اور نہ ہی انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ ڈیڑھ انچ کے سائز سے مارکیٹ میں یہ مراد ہوتا ہے اگر بتادیتے تو میں ان سےسکیل کے مطابق ہی ٹیپ بنواتا ،تاکہ میری ضرورت پوری ہوجاتی، اب یہ ٹیپ میرے کا م کی نہیں ہے۔

اس بارے میں ،میں نے جامعہ اشرفیہ سے بھی پوچھا ہے انہوں نے بھی مجھے بتایا ہے کہ تمہاری مرضی ہے چاہے یہ ٹیپ لو، چاہے نہ لو۔جامعہ اشرفیہ کا فتوٰی ساتھ لف ہے۔

نوٹ: ہماری معلومات کے مطابق ڈیڑھ انچ کی ٹیپ تیار کروانے کی صورت میں پوری مارکیٹ کا رواج یہی ہے کہ ایسی صورت میں سکیل سائز کے مطابق ٹیپ تیار نہیں کی جاتی بلکہ مارکیٹ کے سائز کے مطابق ٹیپ تیار کی جاتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

چونکہ مذکورہ صورت میں مارکیٹ کا عرف و رواج یہی ہے کہ ٹیپ کا مارکیٹ سائز ،سکیل کے سائز سے مختلف ہوتا ہے لہذا *** صاحب بھی مارکیٹ کے عرف پر عمل کرنے کے پابند ہیں اور وہ ٹیپ وصول کرنے سے انکار نہیں کرسکتے۔ واضح رہے کہ *** صاحب کی طرف سے ڈیڑھ انچ کی صراحت کو عرف کے معارض بنا کر عرف پر حاکم نہیں بنایا جائے گاکیونکہ ڈیڑھ انچ کے لفظ کا عرف سے معارضہ نہیں ہے بلکہ اس لفظ کے مصداق کو طے کرنے میں عرف کا دخل ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے مرلے کا لفظ شہر میں پیمائش کے لحاظ سے مختلف مساحت  پر بولا جاتا ہے اور مضافات وغیرہ میں مختلف مساحت پر بولا جاتا ہے۔

شرح المجلہ مادہ 43 میں ہے:

المادة 43المعروف عرفا كالمشروط شرطا الماده المعروف بين التجار كالمشروط بينهم

قال الاتاسي تحته:هذه المادة داخلة تحت المادة السابقة وذكرها من قبيل الاخص بعد الاعم اهتماما بشان المعاملات التجارية ، فما يقع بين التجار من المعاملات التجارية بين غيرهم من العقود والمعاملات اللتي هي من نوع التجارة ، ينصرف عند الاطلاق الى العرف والعادة فلو تبايع  تاجران  شيئا ولم  يصرحا في صلب العقد ان الثمن نقد او نسيئة فعقد البيع وان كان مقتضاه نقدالثمن حالا الا انه اذا تعارفوا على ان ذلك الشيئ يودى ثمنه  بعد اسبوع او شهر لايلزم المشتري اداء الثمن حالا وينصرف الى عرفهم وعادتهم في الاجل لان المعروف بينهم كالمشروط 

ہدایہ (3/34) میں ہے :

ومن اطلق الثمن في البيع كا ن على غالب نقد البلد لانه المتعارف وفيه التحري للجواز فيصرف اليه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved