- رابطہ: 3082-411-300 (92)+
- ای میل: ifta4u@yahoo.com
- فتوی نمبر: 29-25
- تاریخ: اگست 16, 2024
- عنوانات: مالی معاملات, وراثت کا بیان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص *** فوت ہوگیا ہے بوقت وفات اس کے ورثاء میں درج ذیل لوگ موجود تھے۔میت کا وال***،سگے دو بڑے بھائی *** اور*** بیوہ *** بیگم اور میت کی اکلوتی بیٹی مسماۃ ***۔ اب حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ میت *** کے کل ترکہ زمین میں سےمیت کی اکلوتی بیٹی مسماۃ *** صاحبہ کو کتنا حصہ ملےگا؟کیونکہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ دادا کی موجود گی میں پوتی وارث نہیں بنتی۔اور بیوہ کو کتنا حصہ ملےگا؟اور میت کے والد اور سگے بھائیوں کو کتنا کتناحصہ ملےگا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ***کے کل ترکے کو 24حصوں میں تقسیم کیا جائیگاجن میں سے 12حصے (50 فیصد)بیٹی کو، 3حصے(12.5فیصد)بیوی کو، 9حصے(37.5فیصد) والد کو ملیں گے۔
نوٹ:مذکورہ صورت میں بھائی محروم ہوں گے۔نیزیہ بات درست نہیں کہ دادا کی موجودگی میں پوتی وارث نہیں بنتی ۔
تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:
24
بیٹی | بیوی | والد | دوبھائی |
نصف | ثمن | سدس مع العصبہ | محروم |
2/1 | 8/1 | 6/1 | |
12 | 3 | 4+5 |
الاحیاء
ورثاء: بیٹی بیوی والد
حصے: 12 3 9
فیصد: 50 12.5 37.5
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved