• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تقسیم میراث کی ایک صورت

استفتاء

ہم سات بھائی اور ایک بہن پہلی ماں سے ہیں جن کو ہمارے والد صاحب نے اپنی  زندگی میں اپنی جائیداد میں سے ہبہ کردیا اور ہماری پہلی ماں فوت ہوچکی ہیں ، اس کے بعد ہمارے والد صاحب نے دوسری شادی کی اور ان سے ایک بیٹا ہے اور ہمارے والد صاحب نےE-Stamp( ای-اسٹامپ)  تحریر کروائی تھی کہ میں  اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو حصہ دے چکا ہوں  لہٰذا میرے مرنے کے بعد کوئی بھی موجودہ جائیداد کا حصہ دار نہ ہوگا اور ایک جائیداد میرے والد صاحب نے اپنے پاس موجود رکھی ہوئی  تھی وہ کہتے تھے کہ وہ میرا ذریعہ معاش ہے اب میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ اب میری دوسری ماں یہ کہتی ہے کہ یہ جائیداد میری اور میرے بچے کی ہے۔

میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ ہم سات بھائی اور ایک بہن اور دوسری ماں سے ہمارا ایک بھائی اور دوسری ماں موجودہ جائیداد کی وارث ہیں یا نہیں؟ اور موجودہ جائیداد اس وقت کرایہ پر چل رہی ہے تو ہم سات بھائی اور ایک بہن، اور دوسری ماں اور دوسری ماں سے ہمارا بھائی اس کرایہ کے وارث ہیں یا نہیں؟

اقرار نامہ مابین فریقین

جس طرح سب میرے بغیر کسی مداخلت کے اپنے اپنے پورشن کے مالک ہیں اسی طرح یہ پورشن گراؤنڈ فلور میری ملکیت ہے صرف ایک ایک عدد موٹر سائیکل کھڑی کرنے کی اجازت ہوگی اس کے علاوہ کسی  کو کسی قسم کی کوئی مداخلت  کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، اوپر تک روشنی ہواکی رکاوٹ کے متعلقہ جنگلوں پر جوکہ پہلا جنگلہ فرسٹ فلو میں ہے  کسی قسم کا کپڑا یا شیٹ وغیرہ ڈالنے کا مجاز نہیں ہوگا۔ عید کے موقع پر صرف جانور ذبح ہوگا باقی گوشت اپنے اپنے پورشن میں بنانے کے پابند ہوں گے۔ گراؤنڈ فلور پورشن میں فرش، گٹر کا ڈھکن ٹوٹنے پر مرمت کرانے کے پابند ہوں گے، تینوں فلور والے چھت گراؤنڈ فلور کی کسی قسم کی لیکج وغیرہ فرسٹ فلور والا درست کرانے کا پابند ہوگا۔ میری واشنگ مشین اور ڈرائر گرل کی پیمائش 10/8 کی عرصہ دراز سے باہر ہیں اس پر کوئی اعتراض کرنے کا مجاز نہیں ہوگا۔  گرل جنگلہ اپنی جگہ لگا رہے گا موٹر سائیکل کھڑی کرتے وقت یا نکالتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ راستے میں کوئی رکاوت پیش نہ آئے۔ میں اپنی اولاد میں جاوید، ریاض، شہزاد، فیاض،مبین،معین،متین اور ایک بیٹی مسماۃ فریدہ کو حصہ دے چکا ہوں، لہٰذا میری زندگی میں یا میرے مرنے کے بعد کوئی بھی موجودہ جائیداد کا حصہ دار نہ ہوگا۔

فریق دوئم کا  مؤقف:

****کی پہلی بیوی سے اولاد 7 بیٹے اور ایک بیٹی ہے، میری ضیاءالحسن سے اولاد ایک بیٹا ہے، میری پہلے شوہر سے اولاد تین بیٹے ، ایک بیٹی ہے جو کہ میرے پہلے شوہر نے رکھ لی، پہلی بیوی کے انتقال کے بعد انہوں نے مجھ سے نکاح کیا۔ جائیداد کی تفصیل:

  • ایک عدد مکان 4مرلے 183 مربع فٹ 4 منزلہ میرے شوہر نے اپنے چار بیٹوں (۱) ریاض الحسن (۲) فیاض الحسن (۳) شہزاد الحسن (۴) متین ضیاء کے نام ہبہ کیا۔
  • ایک عدد دکان 39 مربع فٹ مارکیٹ میں اپنے تین بیٹوں جاوید الحسن، معین ضیاء اور متین ضیاء کے نام کردی۔
  • ایک عدد مکان 6 مرلے 120 فٹ میں سے ایک مرلہ 120 فٹ انہوں نے اپنی بیٹی فریدہ ماجد کے نام کردیا اور باقی 5 مرلہ موجود ہے جو کہ کرایہ پر ہے جس سے ہمارا گذر بسر ہے۔
  • ایک عدد مکان 2 مرلہ 139 فٹ میں سے 2 مرلے میرے بیٹے دانیال ضیاء کے نام اور باقی 139 ضیاء الحسن کے نام ہے۔ یہ مکان اس وقت 30 لاکھ کا خریدا تھا۔

مجھے  میرے والدین کی طرف سے وراثت میں 5 لاکھ روپے ملے تھے اور 6 تولے سونا مجھے شادی پر ملا جوکہ میرے  شوہر نے جائیداد نمبر 4 کے خریدنے کے لیے استعمال کرلیے۔ یہ پیسے اور سونا میں نے شوہر کو بطور قرض دیا تھا۔ میرے کہنے کے باوجود جائیداد میں میرے نام کچھ نہیں کیا اس خدشے کے پیشِ نظر کہ میرے انتقال کے بعد میرے بچے جو پہلے شوہر سے ہیں ان میں تنازع شروع ہوجائے گا، ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ میں اپنی پہلی بیوی کے بچوں کو جائیداد میں  سے حصہ دے چکا اور باقی جائیداد سے وہ لاتعلق ہوچکے، ثبوت کے لیے کاغذات ساتھ منسلک ہیں جس میں میرے شوہر کے پہلے بچوں نے یہ اقرار کیا ہے کہ وہ اپنا حصہ لے چکے اور باقی جائیداد سے ضیاءالحسن کی زندگی اور موت کے بعد وہ لاتعلق ہوں گے اور اس میں حق وراثت نہیں جتلائیں گے جس کے نام کہیں گے وہ اس کے پابند ہوں گے اور ضیاءالحسن کا کہنا تھا کہ میری باقی جائیداد کے  میرے بعد میری بیوی اور بیٹا دانیال ضیاء حقدار ہوں گے۔

میرے شوہر کے انتقال کے بعد ان کی پہلی بیوی سے اولاد کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے والد نے جو جائیداد ہمارے نام کردی وہ تو ہماری ہوگئی اور جو ہم نے لکھ  کردیا ہوا تھا اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اب میرے شوہر کے انتقال کے بعد اس لکھے ہوئے اور کہے ہوئے سے انکاری ہیں اور 5 مرلے کو وراثت قرار دے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ:

1۔میرے شوہر کی پہلی بیوی کے بچوں نے جو زبانی اور تحریری عہد کیا تھا شریعت میں اس کی کیا حیثیت ہے؟

2۔میری ملکیت 5 لاکھ روپے نقد اور 6 تولے سونا  جائیداد نمبر 4 خریدنے میں استعمال کیا تھا  اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

3۔میرے شوہر کے سابقہ بچے اپنے اقرار نامے سے انکاری ہیں اگر میں اس صورت میں ہبہ کو چیلنج کردوں تو میرے حق میں کیسا ہے؟

4۔میرے شوہر کے سابقہ بچے تمام شادی شدہ اور خود کفیل ہیں جبکہ میرا بیٹا نابالغ عمر 17 سال ہے اور زیر تعلیم ہے، جائیداد نمبر 3 کے کرائے سے ضیاءالحسن کی زندگی میں بھی اور فوت ہونے کے بعد بھی اسی کے کرائے پر ہماری زندگی کا گذر بسر ہے۔ کیا یہ اب ترکہ میں شمار ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ شوہر کی پہلی بیوی کے بچوں کو اس عہد کی پاسداری کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ عہد کرتے وقت انہوں نے اپنے والد سے ان کی زندگی میں جائیداد لی ہے اگر ان کے والد کو معلوم ہوتا کہ یہ اس عہد کی پاسداری نہیں کریں گے تو بظاہر وہ اپنی اس اولاد کو اپنی جائیداد نہ دیتے۔لہٰذا اگر یہ بچے اس عہد کی پاسداری نہیں کرتے تو ان پر لازم ہے کہ وہ والد کی دی ہوئی جائیداد واپس کریں اور کل جائیداد کو شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کریں۔

2۔ آپ اپنا یہ قرض مرحوم کی چھوڑی ہوئی جائیداد میں سے منہا کرسکتی ہیں۔

3۔ اگر وہ اپنے اقرار نامے سے انکاری ہوں تو آپ ہبہ کو چیلنج کرسکتی ہیں۔

4۔ اگر سابقہ بیوی کے بچے اپنے اقرار پر برقرار رہتے ہیں تو یہ جائیداد ترکہ میں شمار نہ ہوگی یعنی اس میں سابقہ بیوی کے بچوں کا حق نہ ہوگا اور اگر  وہ اپنے اقرار پر  برقرار نہیں  رہتے تو یہ جائیداد بھی ترکہ میں شمار ہوگی اور جو جائیداد سابقہ بیوی کے بیٹوں اور بیٹی کو ہدیہ کی گئی ہے وہ بھی ترکہ میں شمار ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved