• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تقسیم میراث کی ایک صورت

استفتاء

ایک بھائی نے سوال بھیجا ہے وراثت کے حوالے سے ۔تین بھائی اور چھ بہنیں ہیں۔ تین بہنیں شادی شدہ ہیں، ایک بھائی تین  غیر شادی شدہ بہنوں کے ساتھ والد صاحب کے چھوڑے ہوئے گھر میں رہ رہے ہیں جس کی مالیت تقریبا 50 لاکھ روپے ہے۔ والد صاحب کا انتقال 2009 میں ہو چکا ہے ۔غیر شادی شدہ بہنوں کی عمریں 51, 47 سال ہیں۔اور دونوں شادی بھی نہیں کرنا چاہتی۔ایک بہن کی عمر 25 سال ہے ،ایک غیر شادی شدہ بھائی کی  عمر 30 سال ہے جو بڑے بھائی کے ساتھ دبئی میں رہ رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ بیان کردہ صورت حال کی روشنی میں وراثت کی تقسیم دو ہزار نو میں ہو جانی چاہیے تھی یا نہیں؟

کیا اب بھی وراثت کی تقسیم ہو جانی چاہیے کہ نہیں؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں

وضاحت:   والدہ کا انتقال والد  صاحب سے پہلے ہوا تھا

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں وراثت کی تقسیم کرنے کا اگر ورثاء کی جانب سے مطالبہ ہو تو وراثت تقسیم کرنی چاہیے، کسی کے حق سے اس کی دلی خوشی کے بغیر فائدہ اٹھانا جائز نہیں۔ اگر وراثت کی تقسیم کا مطالبہ ہے تو تقسیم کرنی چاہیے جس کی تفصیل یہ ہے کہ کل ترکہ کے12 حصے کریں گے جس میں سے ہر ایک بھائی  کو دو ،دو حصے اور بہن کو ایک حصہ ملے گا۔ تقسیم درج ذیل :

12

بھائی           ———– بھائی       ————بھائی——-       بہن——-       بہن ———–      بہن———-     بہن———-       بہن       ———–بہن

———————————————                                         عصبہ

2              2          2          1          1          1          1          1          1

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved