• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تقسیمِ میراث کی ایک صورت

استفتاء

جناب مسئلہ برائے فتویٰ / ماہرانہ رائے  درج ذیل تحریر کیا جارہا ہے:

سوالی (میرے) بشمول خود) 6 بھائی اور ایک بہن ہے۔ والدہ اور والد صاحب انتقال کر چکے ہیں۔

(2)سوالی کا سب سے بڑے سے چھوٹا بھائی  انتقال کر چکا ہے۔

3(3) سوالی کے وفات شدہ بھائی نے بوقت مرگ کوئی  وصیت  نہیں کی کیونکہ وہ اپنی غیر ملکی بیوی کو طلاق دے چکا تھا اور اس کی اپنی غیرملکی بیوی سے کوئی  اولاد بھی نہیں تھی۔ اور نہ ہی سوالی کے مرحوم بھائی نے دوبارہ دوسری شادی کی۔

(4)سوالی کے مرحوم بھائی نے اپنے پیچھے کچھ جائیداد اور کیش رقم چھوڑی ہے۔

(5) سوالی کے بھائی کا انتقال 2016 میں ہوا تھا۔ مرحوم کی چھوڑی ہوئی  کیش رقم سوالی کے پاس ابھی تک بینک میں موجود ہے اور اس میں ایک پائی  بھی ذاتی مصرف میں نہیں لائی گئی ہے ۔ پلاٹ بھی جیسا تھا ویسا ہی پڑا ہے۔

(6) سوالی اور اس کے 4 بھائی اور ایک بہن ماشاءاللہ بقید حیات ہیں اور شادی شدہ ہیں۔

آپ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ::

ا۔. میراث کی تقسیم کس طرح ہوگی؟

ب۔. کیا سوالی اللہ تعالیٰ کی شریعت کی روشنی میں گناہ کبیرہ یا صغیرہ کا مرتکب ہوا ہے کیونکہ اس نے ابھی تک اس میراث کو حقداروں کو نہیں پہنچایا۔ (درحقیقت سوالی اور اس کے دیگر بھائی اور بہن اللہ تعالیٰ کے کرم سے معاشی و تعلیمی طور پر بہت آسودہ حال لوگ ہیں اس لئے کبھی میراث کا سوال ہی نہیں آیا۔)

ج۔. سوالی اس سال اپنی زوجہ  و دیگر اہل خانہ کے ہمراہ حج بیت اللہ شریف کے لئےجانا چا ہتا ہے۔

برائے  مہربانی سوالی کی جلد از جلد اس سلسلے میں آسان اور سادہ سے لفظوں میں راہنمائی فرما کر مشکور ہونے کا موقع فراہم فرمائیں۔

اللہ تعالیٰ آپ کو اس خدمت کا عظیم اجر عطاء فرمائے ۔آمین

وضاحت  مطلوب ہے: (1) والدین کا انتقال بھائی کی زندگی میں ہوا یا ان کی وفات کے بعد ہوا؟ (2) بیوی کو طلاق مرضِ وفات میں دی تھی یا صحت کی حالت میں؟(3) والدہ کے والدین کاا نتقال کب ہوا تھا؟

جواب وضاحت: والد صاحب کا انتقال بھائی کے انتقال سے پہلے  2002 میں ہوا تھا۔

ب۔. والدہ صاحبہ کا انتقال جولائی  2016 میں میرے اس بھائی  کی وفات کے تقریباً 6 ماہ  بعدہوا تھا جس کی میراث کی تقسیم کے لئے آپ سے رائے مانگی گئی  ہے۔(میرے اس بھائی کی تاریخ وفات 16 جنوری 2016 ہے) ۔

ج۔. میرے مرحوم بھائی اور اس کی غیر ملکی بیوی کی علیحدگی یا باقاعدہ طلاق باہمی رضامندی سے صحت و تندرستی کی حالت میں یورپ میں ہوئی  تھی۔ وہ عورت اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ امریکہ میں رہتی ہے۔

اگر آپ کو کوئی اور وضاحت  درکار ہو تو آپ مجھے کال بھی کر سکتے ہیں. لیکن جواب سے جلدی نوازیں کیونکہ سائل اپنی زوجہ اور بچوں کے ساتھ حج بیت اللہ کی نیت کرچکا ہے۔

د۔ ہمارے نانا نانی  اور دادا، دادی کا  انتقال  والدہ سے پہلے ہی ہو چکا  ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

الف۔مذکورہ صورت میں کل ترکہ(جائیداد) کے 66 حصے کیے جائیں گے جن میں سے ہر بھائی کو 12-12 حصے اور بہن کو 6حصے دئیے جائیں گے۔

ب۔ اگر میراث کو  ورثاء کے تقاضے کے باوجود تقسیم نہ کیا جائے تو گناہ ہوتا ہے اور جب ورثاء کی جانب سے کوئی تقاضہ نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ جلدی تقسیم کی جائے لیکن تاخیر کی صورت میں گناہ نہیں ہوتا۔

تقسیمِ صورت درج ذیل ہے:

6×11=66                   (بھائی)

ماںبھائیبھائیبھائیبھائیبھائیبہن
6/1         عصبہ
1×11         5×11
11           55
10101010105

 

11                       والدہ                    مافی الید 11

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹی
عصبہ
222221

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved