• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تقسیم وراثت کی ایک صورت

استفتاء

آپ کی خدمت میں گزارش ہے کہ ہم چار بھائی ہیں اور ہماری ایک بہن ہے ،ایک ماہ پہلےمیری والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا ہے ان کے پاس جو سونا تھا زیور کی شکل میں وہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہم چار بھائیوں کو وقت کی ضرورت کے مطابق تقریبا برابر ہی دیا تھا اس کے بعد والدہ کے پاس جو زیور بچا تھا وہ دو چوڑیاں،دو کانٹےاوردو بالیاں تھیں ان میں سے  دوچوڑیاں انہوں نے اپنی بیٹی کودے دیں اور دو کانٹے اپنی بیٹی کی بیٹی کو دیے  اور بیٹی کو بھی کہا کہ یہ ان کے ہیں اور دو بالیاں اللہ کی راہ میں دینے کو کہا ،یہ ان کی وصیت تھی بیٹی نے کہا کہ ابھی آپ حیات ہیں آپ ان کو استعمال کریں میں بعد میں لے لوں گی،اس بات کے گواہ میں ،میری بیوی ،بہن اور ان کی بیٹی ہیں لہذا میں نے ان کے فوت ہونے کے بعد ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اس کام کو سر انجام دے دیا۔

اب سوال یہ ہے کہ  باقی بیٹوں کو والدہ نے زندگی میں ہی سونا یا نقدی وغیرہ دے دی تھی  اس لیے میں نےوالدہ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے باقی زیور بیٹی کو دے دیاکیا یہ ٹھیک ہے یا آپ بتادیں کہ کس طرح تقسیم ہونی چاہیے تھی؟

بھائی  زید  کا بیان:

مجھے اس بار ے میں کوئی خاص معلومات نہیں  ہیں۔بھائی  ضیاء  جو کہتے ہیں مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں اور والدہ صاحبہ اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ نقدی ،سونا وغیرہ دیتی رہی ہے اور صرف بیٹوں کو ہی نہیں بیٹی کو بھی اس سے پہلے کچھ نہ کچھ دیا ہے۔

بھائی  خالد  کا بیان:

مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔

بھائی  بکر کا بیان:

میرا مقصد یہ ہے کہ یہ سونا جو بھائی نے بہن کو دیا ہے یہ وراثت ہے جس میں سب  بہن بھائیوں کا حق ہے اور اس بات کا  مجھے علم نہیں ہے کہ والدہ نے یہ سونا بہن کو دے دیا تھا اور میری والدہ نے مجھے زندگی میں کچھ نہیں دیا ،میری بیوی کو دیا ہو اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہوسکتا ہے کہ دیا ہو لیکن مجھے اس کا علم نہیں ہے۔

بہن فاطمہ کا بیان:

میری والدہ  صاحبہ نے میری بھابیوں کو زندگی میں کچھ زیور وغیرہ  تحفہ کے طور پر دے دیا تھا   والدہ صاحبہ  نے مجھے بھی کہا کہ یہ دو چوڑیاں تمہاری ہیں یہ تم لے لواور دوچھوٹے چھوٹے کانٹے انہوں نے میری بیٹی کو دیے اس بات کے گواہ میرے بھائی  ضیاء  اور ان کی اہلیہ ہیں  لیکن مجھے اچھا نہیں لگتا  تھا کہ وہ حیات ہوں اور میں ان کا یہ زیور لے لو اس لیے میں کہتی کہ ابھی آپ حیات ہیں آپ کا آنا جانا رہتا ہے اس لیے آپ ان کو استعمال کریں  انہوں نے اگرچہ مجھے قبضہ نہیں دیا لیکن انہوں نے بہت صاف طور پر کہا تھا اور کئی مرتبہ کہا تھا کہ یہ لے جاؤ یہ تمہاری ہیں لیکن میں یہی کہتی کہ نہیں ابھی آپ ان کو استعمال کریں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو چوڑیوں اور دو بالیوں میں وراثت جاری نہ ہوگی کیونکہ اگرچہ ہبہ کے تام ہونے کے لیے قبضہ شرط ہے جوکہ مذکورہ صورت میں بظاہر مفقود ہے تاہم چونکہ بعض اہل علم کے نزدیک ہبہ کے تام ہونے کے لیے قبضہ شرط نہیں ہے اس لیے ان اہل علم کے نزدیک مذکورہ صورت میں ہبہ تام ہوگیا ہے اور موجودہ دور میں چونکہ جہالت کا غلبہ ہے جس کی وجہ سے لوگ زبانی کہہ دینے کو ہی کافی سمجھتے ہیں اگر انہیں معلوم ہوتا کہ زبانی کہنا کافی نہیں تو قبضہ بھی کروادیتے لہٰذا  موجودہ دو ر میں مذکورہ نوعیت کے مسائل(جن میں عورت نے اکثر ورثاء کو اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ دیکر  قبضہ بھی دے دیا ہو اور کچھ کو صرف زبانی کہا ہو اور قبضہ نہ دیا ہو ) میں ان بعض اہل علم کی رائے پر عمل کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے تاہم اگر کسی وارث  کو اس کے وراثت ہونے پر ہی اصرار ہو  تو بیٹی کو چاہیے کہ وہ اپنے حصے کی چوڑیوں میں سے (نہ کہ اپنی بیٹی کی بالیوں میں سے) اس وارث کا حصہ دیدے۔

شرح المجلہ(رقم المادۃ:837)میں ہے:

تنعقد الهبة بالايجاب والقبول وتتم بالقبض الكامل لانها من التبرعات والتبرع لايتم الا بالقبض.

مغنی(5/387)میں ہے:

’’وقال مالك، وأبو ثور: يلزم ذلك(اله‍بة) بمجرد العقد لعموم قوله عليه السلام: “العائد في هبته كالعائد في قيئه”. ولأنه إزالة ملك بغيرعوض فلزم بمجرد العقد كالوقف والعتق.‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved