- فتوی نمبر: 29-302
- تاریخ: 25 جون 2023
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
مفتی صاحب میں نے تقسیم میراث کے بارے میں سوال کرنا ہے۔ سوال یہ ہےکہ ہم پانچ بھائی اور دو بہنیں ہیں، والد صاحب نے اپنی حیات میں بیٹوں کو 6-6مرلہ جگہ دی تھی، بیٹیوں کو نہیں دی تھی لیکن وہ اس پر راضی تھیں، اب والد صاحب کےمرنے کے بعد 2ایکڑ زمین ترکہ میں بچی ہے۔ ہم بھائی بہن آپس میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں اسکا کیا حکم ہوگا ؟جبکہ بہنیں بھائیوں کو ملنے والی 6-6 مرلہ زمین میں سے اپنا حصہ چھوڑنے پر راضی تھیں اور میت کی بیوی ان کی حیات میں ہی فوت ہوچکی تھی ان کی ملکیت میں کچھ نہ تھا۔
نوٹ: بہنوں سے رابطہ کرکے مذکورہ صورتحال کےبارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں والد صاحب نے اپنی حیات میں جو 6،6 مرلہ جگہ اپنے بیٹوں کو دی تھی وہ میراث میں شامل نہ ہوگی لہٰذا اس جگہ کو چھوڑ کر باقی میراث کو بیٹے بیٹیوں کو تقسیم کیا جائے گا جس کی صورت یہ ہے کہ مرحوم والد کے کل ترکہ کو 12حصوں میں تقسیم کر یں گے جن میں سے ہر بیٹے کو دو حصے (16.666فیصد فی کس )اور ہر بیٹی کو ایک حصہ(333.8فیصد فی کس)ملےگا۔
تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:
12
5بیٹے | 2بیٹیاں |
عصبہ | |
2+2+2+2+2 | 1+1 |
فتاویٰ عالمگیری (4/391) میں ہے:
ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved