• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تقسیم وراثت ، نابالغ وارث کے حصہ کا حکم

استفتاء

1۔میرے والد انتقال فرما گئے جن کے پانچ وارثین ہیں۔ 1زوجہ،1بیٹی جس کی عمر 19 سال ہے اور 3 بیٹے جن کی عمر (11، 15،17)سال ہے ان میں  میراث  کیسے تقسیم ہو گی ؟

2۔ ایک وارث نابالغ ہے تو اس کی وراثت کا کیا کیا جائے؟

تنقیح:مرحوم کے والدین یعنی میرے دادا اور دادی کا انتقال پہلے ہی ہو گیا تھا۔مرحوم والد نے نابالغ بیٹے کے بالغ اور سمجھدار ہوجانے تک اس کے  حصے پر قبضہ کے لیے کسی کی ذمہ داری نہیں لگائی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں مرحوم کے کل ترکے کے 8 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 1 حصہ (12.5فیصد) بیوی کو اور 2-2حصے (25فیصد) تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو اور ایک حصہ (12.5فیصد) بیٹی کو ملے گا۔

2۔مذکورہ صورت میں  چونکہ اس   نابالغ کے نہ تو والد حیات ہیں اور نہ دادا اور نہ  ہی انہوں نے اس نابالغ وارث  کے حصہ پر قبضہ کرنے کی کسی کی ذمہ داری لگائی تھی اس لیے اس کی والدہ یا بھائی  یا دیگر ورثاءمیں سے کوئی بھی  امانت دار اور مال کی حفاظت کرنے والا  شخص اس  نابالغ کاحصہ  اپنے پاس رکھ لے اور  حسب ضرورت نابالغ پر خرچ کرتا رہے اور جب وہ بچہ بالغ اورسمجھدار ہوجائے تو پھر اس کا جو  حصہ بچے اس کے حوالہ کردیاجائے ۔

احکام القرآن للتھانویؒ(2/81)میں ہے:

(فإن أنستم منهم رشدا …)فمفاده عند أبى حنيفة وجوب دفع الأموال اليهم بعد إيناس الرشد، وأما أنها لا تدفع اليهم قبله فلا،لأن التعليق بالشرط لا يوجب العدم عند عدمه عندنا….ولا نسلم أن المنع يدور مع السفه مطلقا بل مع سفه الصبا،ولا نسلم بقاؤه بعد تلك المدة، فقد ورد عن عمر رضي الله عنه أنه قال: ينتهي لب الرجل إذا بلغ خمسا و عشرين،  وقال أهل الطباع :من بلغ خمسا و عشرين سنة فقد بلغ أشده.

رد المحتار  (6/ 714)میں ہے:

‌الولاية ‌في ‌مال ‌الصغير للأب ثم وصيه ثم وصي وصيه ولو بعد، فلو مات الأب ولم يوص فالولاية لأبي الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه فإن لم يكن فللقاضي.

امداد الفتاوی(7/259) میں ہے:

الجواب: في الدر المختار باب الحضانه ولوالأب مبذرا يدفع كسب الابن الى أمين كما في سائر أملاك ازیں روایت ثابت شد کے ہر گاہ پدر کہ علی الاطلاق ولایت می دارد بتبذیر و اتلاف ممنوع و مسلوب الولایت می شود پس تا بابعم چہ رسد در امین بتخصیص مادر نیست ہرکس کہ اہلیت امانت و حفاظت داشتہ باشد احق و مقدم تر است۔

فتاوی محمودیہ(495/20) میں ہے:

نابالغوں کے مال کی ولایت باپ کے بعد وصی کو حاصل ہوتی ہے لہذا اگر مرنے والے نے کسی کو وصی بنایا ہو تو وہ ولی ہوگا، اگر کسی کو ولی نہیں بنایا تو ان کا دادا  ولی  ہوگا ،اگر دادا موجود نہ ہو تو پھر حاکم وقت کو ولایت حاصل ہے ۔اگر حاکم وقت مسلمان ہو تو وہ خود ان نابالغوں کے مال کی حفاظت کرے یا کسی دیندار شخص کو مقرر کر دے۔ اگر حاکم وقت مسلمان نہ ہو تو پھر سربر آوردہ چند صلحاء کسی کو مقرر کر دیں جس کو ان نابالغوں کے حق پر خیر خواہ سمجھیں والدہ کو یا بھائیوں کو یا چچا کو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved