• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

تقسیم میراث سے متعلق چند سوالات

استفتاء

ایک جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں آپ کی رہنمائی درکار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ  میرے ایک عزیز تھے جو کہ محکمہ اوقاف میں امام کے عہدہ پر  تعینات تھے ان کا چند ماہ قبل انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے وارثین میں چھ بیٹے، ایک بیٹی اور ایک بیوہ ہے۔ جو انہوں نے وراثت چھوڑی ان  میں ایک مکان گاؤں میں اور ان کی پنشن ، جی پر فنڈ، تنخواہ وغیرہ سب ملا کر تقریباً 12 لاکھ آٹھ ہزارروپے  وغیرہ بنتی ہے۔ بیوہ کا کہنا ہے کہ چونکہ ہم نےبیٹی کو کافی سارا جہیز دے دیا  ہے لہذا اس کا وراثت میں کوئی حصہ نہ ہے۔ کیونکہ جہیز دیتے وقت اس کو مرحوم باپ  نے یہ بتا دیا تھا۔

اوپر والی تفصیل کی روشنی میں آپ سےدرج ذیل سوالات کا جواب در کار ہے:

۱۔ کیا مکان کے علاوہ جو انہوں نے رقم بینک میں چھوڑی یا  پنشن یا دیگر واجبات سے جو رقم حکومت سے ملی کیا وہ وراثت کے زمرے میں آئے گی یا نہیں؟

۲۔ کیا بیوہ کو اختیار ہے کہ اولاد میں سے کسی کو کم یا زیادہ حصہ یا رقم دے ۔ یا کسی بچے کو بالکل حصہ نہ دے؟

۳۔ کیا  ماہانہ پنشن جو کہ بیوہ کو  مل رہی ہے اس میں بچوں کا کوئی حق ہے یا وہ صرف بیوہ ہی کو ملے گی؟

۴۔ 1208000 روپے میں سے ایک بیوہ ، ایک بیٹی اور چھ بیٹوں کو کتنا کتنا حصہ آئے گا؟ برائے کرم رقم کی شکل میں تقسیم واضح کردیں تاکہ وارثین میں کوئی جھگڑا نہ ہو۔

۵۔ گاؤں میں جو مکان ہے اس کی تقسیم کیسے ہو گی؟ بیوہ کی زندگی تک کسی بچے کو یہ حق ہے کہ وہ یہ ڈیمانڈ کرے کہ یہ بھی بیچ کر اس کا حصہ ادا کیا جائے؟

۶۔ بیٹی یہ کہہ رہی ہےکہ میں بھی مشکل میں ہوں، میں اپنا حصہ وصول کروں گی۔

پہلی فرصت میں اس کا جواب عنایت کریں تاکہ جھگڑا مزید نہ بڑھ جائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔   8×13=104                                 

بیوی                  بیٹی                 6 بیٹے

8/1                           مابقی

13×1                        13×7

13                                       91

13                             7                 14 فی کس

ترکہ کی تقسیم کا طریقہ ار یہ ہے کہ اگر میت پر قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے بعد کل ترکہ کے 104 حصے کیے جائیں گے، جن میں سے 13 حصے بیوی کے ہوں گے، باقی 91 حصوں کی ااس طرح تقسیم ہوگی کہ ہر ہر بیٹے 14+14 حصے اور  بیٹی کو 7 حصے ملیں گے۔

1208000 روپے میں سے بیوی کو 151000 روپے، ہر بیٹے کو  162615 روپے ،اور بیٹی کو 81307 روپے   ملیں گے۔

1۔ مذکورہ تمام چیزیں یعنی بنیک کی رقم، پنشن، دیگر واجبات میں جو رقم حکومت سے یکمشت ملی ہے یہ سب وراثت میں تقسیم ہوں گے۔

2۔ بیوہ کو کسی قسم کا اختیار نہیں کہ وہ اپنی اولاد میں سےکسی کو وراثت میں سے  کم یا زیادہ دے یا بالکل محروم رکھے۔

3۔ ماہانہ پیشن جو بیوہ کی زندگی تک اسے ملتی رہتی ہے اس میں بیوہ ہی کا حق مقدم ہے۔

4۔ اس کا جواب اوپر ذکر ہوچکا ہے۔

5۔ گاؤں میں جو مرحوم کا مکان ہے اس کی تقسیم بھی وراثت میں ضروری ہے، اور اس کی تقسیم کا طریقہ بھی مذکورہ طریقے کے مطابق ہی ہوگا۔

6۔ شرعاً بیٹی کا بھی اس وراثت میں حصہ ہے ان کا مطالبہ درست ہے۔ جہیز کے نام پر جو چیز دی جاتی ہے وہ ہدیہ ہوتی ہے، وراثت نہیں کیونکہ وراثت کا اطلاق موت کے بعد  تقسیم ہونے والے اموال پر ہوتاہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved