• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تقسیم وراثت کی ایک صورت

استفتاء

1۔جناب عالی میری شادی نہیں ہوئی میں  لاولد ہوں  میرے والدین بھی وفات پا چکے ہیں مجھے  بعد از وفات اپنی وراثتی رہائشی جائیداد کی تقسیم کے لیے درج ذیل افراد کے  بارے میں فتوی درکار ہے کہ میری جائیداد میں سے کس کو کتنا حصہ ملے گا؟

(۱)زیدمرحوم  (۲)فاطمہ مرحومہ (۳)عائشہ(۴)  عمرو (۵)  بکر (۶)  خالد۔یہ میرے 6 بہن بھائی ہیں        ایک بھائی اور بہن فوت ہوچکے ہیں ، تین بھائی اور ایک بہن حیات ہے۔

2۔ میں  اپنی وراثتی جائیدادمیں سے  کسی خیر کے کام  کیلئے کتنےحصے کی وصیت کرسکتا  ہوں؟

3-درج بالاافرادمیں سے کسی ایک  کو قبل از وفات رہائشی جائیدادکا کچھ  حصہ تقسیم کرکے دیاجاسکتاہے؟ یا ایسا کرنا گناہ تصور کیاجائے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں اگر آپ کی وفات کے وقت یہی ورثاء ہوئے تو  آپ کی جائیداد کے کل سات حصے  کیے جائیں گے جن میں سے 1حصہ (14.28 فیصد) بہن کو اور 2حصے (28.57 فیصد)ہربھائی کو ملیں گے۔

2-اپنی وراثتی جائیداد میں سے آپ خیر کے کام کے لیے  ایک تہائی  کی وصیت کر سکتے ہیں۔ اور اگر زائدکی وصیت کریں تو زائد کی وصیت دیگر ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہوگی لہٰذا ان کی رضامندی سے اس  زائد میں بھی وصیت جاری ہوگی۔

3-مذکورہ بالاافراد  میں سے کسی ایک کو آپ اپنی زندگی میں اپنی جائیدادسے کچھ حصہ دے سکتے ہیں  ایسا کرنا گناہ نہیں ہےبشرطیکہ کسی وارث کومحروم کرنے کی نیت نہ ہو اور باقی ورثاء کو اس پر اعتراض بھی نہ ہو۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2039): میں ہے

وعن أبي هريرة  رضي الله عنه  عن النبي  صلى الله عليه وسلم  قال: «إن الرجل ليعمل والمرأة بطاعة الله ستين سنة، ثم يحضرهما الموت، فيضاران في الوصية، فتجب لهما النار» . ثم قرأ أبو هريرة {من بعد وصية يوصى بها أو دين غير مضار} [النساء: 12] إلى قوله {وذلك الفوز العظيم} [النساء: 13] رواه أحمد، والترمذي، وأبو داود، وابن ماجه.

(ثم يحضرهما الموت ) أي: علامته ( «فيضاران في الوصية» ) من المضارة أي: يوصلان الضرر إلى الوارث بسبب الوصية للأجنبي بأكثر من الثلث، أو بأن يهب جميع ماله لواحد من الورثة كيلا يرث وارث آخر من ماله شيئا، فهذا مكروه وفرار عن حكم الله تعالى، ذكره ابن الملك، وفيه: أنه لا يحصل بهما ضرر لأحد، اللهم إلا أن يقال معناه فيقصدان الضرر، وقال بعضهم: كان يوصي لغير أهل الوصية أو يوصي بعدم إمضاء ما أوصى به حقا بأن ندم من وصيته أو ينقض بعض الوصية ( «فتجب لهما النار» ) أي: ذهبت والمعنى يستحقان العقوبة، ولكنهما تحت المشيئة

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع (6/ 264)میں ہے:

للمالك ‌أن ‌يتصرف ‌في ‌ملكه أي تصرف شاء.

درمختار (8/583) میں ہے:

لا ‌بأس ‌بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved