• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تراویح پڑھانے  والے کا وقت کی اجرت لینا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ رمضان المبارک میں تراویح پڑھانے والا وقت اور محنت کی اجرت لے سکتا ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

تراویح پڑھانے والے کا وقت اور محنت  کی اجرت لینا درست نہیں کیونکہ اصل میں عبادات پر اجرت لینا جائز نہیں لیکن فقہاء متاخرین نے  بعض مصالح شرعیہ کی وجہ سے بعض  چیزوں پر اجرت لینے کو جائز کہا ہےجیسے تعلیم قرآن،امامت وغیرہ لیکن یہ مصالح شرعیہ  رمضان میں قرآن سنانے میں موجود نہیں ۔

تبیین الحقائق(124/5) میں ہے:( والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن ) وهو مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك وقالوا بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم وكان لهم عطيات في بيت المال.احسن الفتاویٰ(354/10)میں ہے:سوال :امامت فرائض کی اجرت لینا جائز ہے، سوال یہ ہے کہ اجرت نماز پڑھانے کی ہے یا حبس ِ  وقت کی ہے اگر محض نماز پڑھانے کی اجرت ہے تو جیسے تراویح اورایصالِ ثواب کے لئے قرآن خوانی کی اجرت لینا ناجائز ہےایسے ہی  امامت فرائض کی اجرت لینا جائز ہونی چاہیے اور اگر یہ حبس ِ وقت کی اجرت ہے تو تراویح میں بھی حبس ِ  وقت ہے اس کی اجرت بھی جائز ہونی چاہیے؟

الجواب :یہ اجرت حبس ِ وقت کی ہے جو امامت کے فرائض کے لیے جائز ہے، امام تراویح کے لئے جائز نہیں لعدم الضرورۃ،  کیونکہ تراویح چھوٹی سورتوں سے بھی پڑھی جاسکتی ہے ،نیز بدون  اجرت  امام نہ مل سکے تو اکیلا بھی پڑھ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved