استفتاء
رمضان المبارک میں تراویح میں حفاظ قران سناتے ہیں جس میں کئی صورتیں پیش آتی ہیں:
۱۔ بعض حفاظ پہلے سے متعین کرتے ہیں کہ ہم قرآن تو سنا رہے ہیں لیکن اتنے اتنے پیسے لیں گے۔
۲۔ بعض پہلے سے طے تو نہیں کرتے لیکن دل میں لینے کا ارادہ ہوتا ہے اور لوگ بھی عرف ورواج کے اعتبار سے دیتے ہیں۔
۳۔ بعض حفاظ کے لینے کا ارادہ بھی نہیں ہوتا لیکن کچھ لوگ چندہ کر کے یا بغیر چندہ کیے بطور خدمت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم قرآن سنانے کی اجرت تو نہیں دے رہے، صرف کچھ خدمت کر رہے ہیں۔
۴۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیںٍٍٍکہ ہم قرآن سنانے کی اجرت نہیں دے رہے بلکہ تراویح پڑھانے کی اجرت دے رہے ہیں اور جیسے فرض نماز پڑھانے کی اجرت دینا صحیح ہے اسی طرح تراویح پڑھانے کی اجرت بھی صحیح ہونی چاہیے۔
نیز قرآن سنانے والے حافظ اور سامع کے حکم میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ اور ختم قرآن کے موقع پر اکثر مساجد میں چندہ کر کے شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، کیا اس طرح کرنا درست ہے؟برائے مہربانی مفصل باحوالہ جوابات تحریر فر مادیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۱۔ یہ صورت باتفاق جمہور ناجائز ہے۔
و الاستيجار على مجرد التلاوة لم يقل به أحد من الأئمة و إنما تنازعوا في الاستيجار على التعليم.(رد المختار: 9/ 96 )
۲۔ اس صورت میں بھی لینا درست نہیں۔ ( فتاویٰ رشیدیہ : 413 )
۳۔ اس صورت کی دو شقیں ہیں:
الف: سنانے والے کے دل میں لینے کی نیت نہیں ہے اور وہ منع بھی کرتا ہے لیکن پھر بھی مسجد والے کچھ دیتے ہوں اور اصرار کرتے ہوں تو لے سکتا ہے۔
ب: سنانے والے کی نیت یہ ہے کہ خواہ کچھ ملے نہ ملے اس نے سنانا ہی ہے لیکن مسجد والوں کا رواج ہے کہ کچھ دیتے ہی ہیں۔ چونکہ اس کو اپنے سنانے سے غرض ہے لینے سے نہیں اس لیے اس کی بھی گنجائش ہے۔
نوٹ: چونکہ اب حفاظ زیادہ ہوگئے ہیں اور جگہ کے حصول کے لیے باہم مقابلہ کی صورت بھی بن جاتی ہے اس لیے بعض جگہوں میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ امام یا منتظم یہ دیکھنے لگے ہیں کہ کون مسجد یا امام کو دے یا زیادہ دے گا یہ رشوت ہے۔
۴۔ لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ امامت تراویح کی اجرت ہے درست نہیں کیونکہ اگر کوئی شخص ” أ لم تر” سے تراویح پڑھائے توعام طور پر اسے کچھ نہیں دیا جاتا پس معلوم ہوا کہ یہ اجرت قرآن سنانے کی ہے نہ کہ امامت کی۔ اور اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ امامت تراویح ہی کی اجرت ہے تب بھی امامت فرائض پر اس کو قیاس کر کے صحیح کہنا درست نہیں کیونکہ جس ضرورت کی وجہ سے امامت فرائض پر اجرت کےجواز کا قول کیا گیا ہے۔ وہ یہاں موجود نہیں۔ چنانچہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإمامة التراويح بمجردها لا يجوز أخذ الأجر عليها لعدم الضرورة التي بها أبيح الأجرة في تعليم القرآن و إمامة المكتوبة و الأذان و غيرها …. قال الصدر الشهيد الجماعة سنة على الكفاية فيها ( أي في التراويح ) حتى لو أقامها البعض في المسجد بجماعة و باقي أهل المحلة أقامها منفرداً في بيته لايكون تاركاً للسنة لإنه يروى عن أفراد الصحابة التخلف ( مراقي الفلاح: 420) بخلاف جماعة المكتوبات فإنها واجبة على العين أو سنة مؤكدة و أيضا فإنها من الشعار فتحققت الضرورة فيها دون جماعة التراويح فلا يجوز أخذ الأجرة على إمامتها مجردة و لا على الختم فيها و التخلف عن مثل هذا الإمام أولى . و الله اعلم ( امداد الاحکام : 3/ 577 )
سامع کا بھی یہی حکم ہے اس کو بھی لینا دینا حرام ہے ( فتاویٰ رشیدیہ : 412، احسن الفتاویٰ: 3/ 516 )۔
چندہ کر کے شیرینی تقسیم کرنا بھی درست نہیں ( فتاویٰ رشیدیہ : 161 ) کیونکہ چندہ عام طور پر ایسے طریقے سے کیا جاتا ہے کہ انسان کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور ہوجاتا ہے جو کہ حدیث شریف میں ہے کہ "لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه ” (ترجمہ: کسی مسلمان کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر حلال نہیں) کی وجہ سے حرام ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص بغیر چندہ کیے اپنی جیب سے شیرینی لاکر تقسیم کرے تو اس کی گنجائش ہے۔ یا کچھ لوگ مل کر از خود اور خوشی سے مٹھائی کا انتظام کریں تو درست ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved