• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

ترکہ سے متعلق ایک سوال

  • فتوی نمبر: 30-21
  • تاریخ: 06 مارچ 2024
  • عنوانات:

استفتاء

جی مجھے تھوڑی سی راہنمائی چاہیے تھی وہ یہ کہ کچھ عرصہ قبل میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے۔میرے شوہر کی جائیداد میں ایک گھر(جس میں ہم رہ رہے ہیں) اور ایک پلاٹ ہے  جب میرے سسر کا انتقال ہوا تھا تو یہ گھر اور ایک پلاٹ میرے شوہر کے حصے میں بطور وراثت کے آیا تھا ۔گھر میرے شوہر کے نام ہوگیا تھا لیکن پلاٹ کچھ مسائل کی وجہ میرے شوہر کے نام نہیں ہوا تھا کہ ان کا انتقال ہوگیا گویا یہ پلاٹ حقیقت میں میرے شوہر کا ہی ہےاور ابھی وہ جگہ میرے جیٹھ نے میرے نام کردی ہےمیرے شوہر کی والدہ بھی  شوہرسے پہلے انتقال کرچکی ہیں  میرے شوہر کے ورثاء ایک بیوی دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں  جو سب کے سب بالغ ہیں  ۔

میرا سوال یہ ہےکہ جو  پلاٹ  میرے نام ہے میں اس کوبچوں کی اجازت سے بیچ کر اپنے کسی بچے کو باہر پڑھائی اور ملازمت کے لیے بھیج سکتی ہوں؟اس کا شرعی حکم کیا ہے؟کیونکہ میرے شوہر کی وفات کے بعد میرے بچے ہی گھر کی کفالت کریں گے یا اس پر بھی وراثت کا حکم لاگو ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جو پلاٹ آپ کے نام ہےوہ  چونکہ آپ کے شوہر کا ہے اس لیے اس پر بھی وراثت کا حکم لاگو ہوگا۔ جس کی وجہ سے اس پلاٹ میں سب بچوں کا بھی حصہ ہے۔ لہٰذا  اگر تمام بچے اس پر راضی ہوں کہ وہ سب مشترکہ طور پر رہیں گے اور نفع،نقصان میں سب شریک ہوں گے تو  سب کی رضامندی سے پلاٹ بیچ کر کسی ایک کو باہر پڑھائی یا ملازمت کے لیے بھیجنا جائزہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں بچے  جب وراثت کی تقسیم کا مطالبہ نہیں کرتے اور وہ مشترکہ طور پر رہنا چاہتے ہیں تو ان کی آپس میں شرکت املاک ہوگی لہذاشرکاء  آپس کی رضامندی سے مشترکہ مال میں جو چاہیں تصرف کرسکتے ہیں۔

بدائع الصنائع  (6/ 56)میں ہے:

‌الشركة ‌في ‌الأصل ‌نوعان: شركة الأملاك، وشركة العقود وشركة الأملاك نوعان: نوع يثبت بفعل الشريكين، ونوع يثبت بغير فعلهما،أماالذي يثبت بفعلهما فنحو أن يشتريا شيئا، أو يوهب لهما، أو يوصى لهما، أو يتصدق عليهما، فيقبلا فيصير المشترى والموهوب والموصى به والمتصدق به مشتركا بينهما شركة ملك،وأما الذي يثبت بغير فعلهما فالميراث بأن ورثا شيئا فيكون الموروث مشتركا بينهما شركة ملك.

امداد الفتاوی(8/73)میں ہے:

سوال : ہندوستان کے عام رواج کے موافق زید اور اس کے تمام ورثہ ایک ہی گھر میں رہتے سہتے کھاتے پیتے ہیں ، عمرو نے زید سے کوئی چیز خریدی اور ابھی قیمت نہیں دی تھی کہ زید کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے بعد عمرو نے قیمت ورثۂ زید میں سے ایک وارث کو دیدی، ہرہر وارث کو ان کے حصوں کے موافق نہیں دی، تو کیا عمرو اپنے بار سے سبکدوش نہیں ہوا۔ اور کیا دوبارہ ہر وارث کو ان کے حصوں کے موافق دینا چاہئے، زید کے ورثا اب تک بدستور سابق ایک ہی گھر میں رہتے سہتے کھاتے پیتے ہیں اور ان کے اموال باہم مشترک ہیں ،ا ور زید کے بعد اسی اشتراک اور ایک گھر میں ہونے کے سبب زید کا کچھ ترکہ تقسیم نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہونے کی امید ہے؟

الجواب: یہ شرکت املاک ہے، شرکت عقد نہیں ، جس میں ہرشریک دوسرے شریک کا وکیل ہوتا ہے پس جب شرکت املاک میں وکالت نہیں تو ایک وارث کو دینے سے دوسرے ورثہ کا مطالبہ اپنے اپنے حصہ کا باقی رہے گا، البتہ اگر سب مل کر اس وارث کو اذن دیدیں یا میت اس وارث کو اپنا وصی بناگیا تھا، تب البتہ اس کا قبض سب کا قبض ہے، البتہ اگر دوسرے ورثہ عمرو سے مطالبہ کریں تو عمرو اس وارث سے باستثناء اس کے حصے کے بقیہ رقم واپس لے سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved