- فتوی نمبر: 7-12
- تاریخ: 28 جون 2014
استفتاء
بچوں کو بھالو اور تصاویر والے جانور کے ساتھ کھیلنے دینا کیسا ہے؟ آجکل روٹی کے بھالو اور مختلف قسم کے جانور بنے ہوتے ہیں جس کے ساتھ بچے کھیلتے ہیں اور یہ بہت بڑے بھی ہوتے ہیں اسی طرح تصاویر والے کپڑے بھی ہوتے ہیں، بچیوں کے لیے گڑیا ہوتی ہے
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آجکل جو کھلونے بازار میں ملتے ہیں وہ پوری مورتیاں اور مکمل تصویر ہوتی ہیں، ان مجسموں کی خرید و فروخت، ان کو گھر میں رکھنا اور ان سے کھیلنا جائز نہیں۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله ﷺ أتاني جبريل عليه السلام قال: أتيتك البارحة فلم يمنعي أن أكون دخلت إلا أنه كان علی الباب تماثيل و كان في البيت قرام ستر فيه تماثيل و كان في البيت كلب فمر برأس التمثال الذي علي باب البيت فليقطع فيصير كهيئة الشجرة و مر بالستر فليقطع …. ففعل رسول الله ﷺ. (رواه الترمذي و أبو داؤد)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ میں آپ کے پاس کل رات آیا تھا اور میرے داخل ہونے میں صرف یہ رکاوٹیں تھیں کہ (ایک تو) دروازے پر کچھ مورتی نما اجسام تھے اور (دوسرے یہ کہ) گھر میں ایک منقش پردہ تھا جس پر (جاندار کی) تصویریں تھیں اور (تیسرے یہ کہ) گھر میں ایک کتا تھا تو گھر کے دروازے پر جو مورتی ہے اس کے بارے میں حکم دیجیے کہ اس ( کے سر) کو کاٹ دیا جائے تاکہ (سرکٹنے کے بعد) دھڑ درخت کی طرح ہو جائے اور پردے کے بارے میں حکم دیجیے کہ اس کو (تصویروں سمیت) کاٹ دیا جائے ۔۔۔۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا۔
و كذا بطل بيع مال غير متقوم كالخمر و الخنزير و يدخل فيه فرس أو ثور من خزف لاستيناس الصبي لأنه لا قيمة له و لا يضمن متلفه. (در منتقی: 2/ 54)
باقی رہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گڑیوں کا ہونا تو ان سے مراد وہ اشیاء تھیں جن کو بچیاں گڑیاں فرض لیتی ہیں جن کے نقوش نمایاں نہیں ہوتے، محض نام کی گڑیاں ہوتی ہیں، یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیاں مکمل مورتیاں نہیں تھیں۔ اور مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے "تصویر کے شرعی احکام” میں بحوالہ "فتح الباری: 10/ 646” نقل کیا ہے:
بعض حضرات نے فرمایا کہ گڑیاں بھی عام تصاویر کی طرح حرام ہیں اور صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس زمانے کی ہے جب تصاویر کی حرمت کا حکم نہیں تھا، یہ قول محدث امام بیہقی، ابن جوزی، منذری، حلیمی، ابن بطال اور محدث داؤدی رحمہم اللہ وغیرہ کا ہے۔ (جواہر الفقہ: 7/ 225)
كتب مولانا محمد يحي المرحوم في التقرير: قوله ﷺ "ما هذا يا عائشة!” لعل هذا يرشدك أنها لم تكن تماثيل تامة و إلا لما افتقر إلی المسألة و لما ترك في بيته. (بذل المجهود: 19/ 171)
و قال المنذري رحمه الله: إن كانت اللعب كالصورة فهو قبل التحريم و إلا فقد يسمی ما ليس بصورة لعبة. (فتح الباري: 10/ 646)
قال البيهقي بعد تخريجه: ثبت النهي عن اتخاذ الصور فتحمل علی أن الرخصة لعائشة رضي الله عنها في ذلك كانت قبل التحريم و به جزم ابن الجوزي رحمه الله. (فتح الباري: 10 646)
نیز فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیاں کیسی تھیں؟ کپڑے کی یا لوہے کی یا تانبے، پیتل، مٹی کی اور پھر ان میں ہاتھ، پاؤں، ناک وغیرہ اعضاء بھی موجود تھے یا نہیں؟ جب تک مستدل (حضرات) ان چیزوں کی تحقیق نہ کریں اس وقت تک موجودہ زمانے کی گڑیاں بنانے، خرید و فروخت کرنے (اور ان سے کھیلنے پر) استدلال درست نہ ہو گا، جاندار کی تصویر (خواہ کپڑے کی ہو یا کسی اور شے کی) بنانے اور رکھنے سے احادیث میں صریح ممانعت ہے۔” (6/ 376) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved