• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تصویر والے کیلنڈر کا استعمال

استفتاء

کیا انسانی تصویر والے کیلنڈر کسی کو دیے یا ذاتی استعمال میں لا ئے جا سکتے ہیں؟ ہماری کمپنی نے روایت کے مطابق ہمیں اس سال بھی کیلنڈر دیے ہیں لیکن ان کیلنڈروں کے ہر صفحے پر عبد الستار ایدھی کی تصویر بنی ہوئی ہے اور اس طرح بنی ہے کہ اس کو تبدیل یا ختم کرنے سے کیلنڈر کافی بد نما ہو جائے گا۔ کیا ایسے کیلنڈر کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے؟ اگر کسی کو تحفے میں دے دیے ہیں تو کیا کریں؟ کیونکہ آج کل اکثر مستند علماء بھی تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ میں نظر آتے ہیں تو کیا ایسے علماء کو بھی نہ سنا جائے؟ یا یہ کہ سنا جا سکتا ہے اور تصویر وغیرہ کا استعمال نہیں کیا جا سکتا؟ وضاحت سے جواب دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کیلنڈر کا استعمال محترم ہوتا ہے چنانچہ بالعموم لٹکایا جاتا ہے یا سامنے رکھا جاتا ہے۔ اس لیے ایسے کیلنڈر کا استعمال کرنا جائز نہیں۔ متعلقہ تصویر کے چہرے پر پھول وغیرہ کا اسٹیکر چپکا دیا جائے پھر استعمال کر سکتے ہیں۔

اگرچہ ہم ویڈیو (ڈیجیٹل) تصویر کو بھی ناجائز  تصویر سمجھتے ہیں تاہم اگر کچھ علماء اس کو جائز بھی  قرار دیتے ہیں تو وہ ڈیجیٹل کی حد تک ہے۔ مطبوعہ (Printed)  تصویر کے جواز کے نہ وہ قائل ہیں اور نہ ہی اس سے اس کا جواز اخذ کیا جا سکتا ہے۔

فتاویٰ شامی (3/416) میں ہے:

وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى ، وهذه الكراهة تحريمية . وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان ، وقال : وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره ، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى ، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها ا هـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ……………………………..فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved