• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تاوان درزی پرآئے گا یا کاریگر پر

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کی ایک شخص نے درزی کو کپڑا سلائی کے لیے دیا اور درزی نے آگے اپنے کاریگر کو کٹائی کے لیے دے دیا اور کاریگر نے اس طریقے سے کپڑے کی کٹائی کی کہ کپڑا ناکارہ ہو گیا یعنی اب اس سے اس ماپ کا سوٹ تیار نہیں ہو سکتا، اگر ہو گا تو  دامن میں جوڑ لگانا پڑے گا جو کہ گاہک کو قبول نہیں۔ اب اس کپڑے کا تاوان کس پر آئے گا؟ برائے مہربانی جواب سے نوازیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تاوان درزی پر جو کہ اجیر مشترک ہے آئے گا۔ اور کاریگر (جو کہ اس کا اجیر خاص ہے) اور اس کی طرف سے کام کر رہا تھا اس پر نہیں آئے گا۔

في رد المحتار (9/ 127):

فروع: فعل الأجير في كل الصنائع يضاف لأستاذه فما أتلفه يضمنه أستاذه. قال الشامي تحت قوله: (يضمنه أستاذه) لأنه عمل بإذنه و لا يضمن هو لأنه أجير وحد لأستاذه يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة كما قدمناه.

و فيه أيضاً (9/ 109):

و لا يضمن ما هلك في يده… اعلم أن الهلاك إما بفعل الأجير أو لا، و الأول إما بالتعدي أو لا، و الثاني إما أن يمكن الاحتراز عنه أو لا، ففي الأول بقسميه يضمن اتفاقاً و في ثاني الثاني لا يضمن اتفاقاً و في أوله لا يضمن عند الإمام مطلقاً و يضمن عندهما مطلقاً … فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved