• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تعویز کے متعلق سوالات

استفتاء

جادو تھا ،علاج کروایا انہوں نے تعویذ دیا گلے میں باندھنے کے لیے ۔تو

۱۔ کیا یہ تعویذ جائز ہے؟الحمدللہ جادو کا توڑ ہوگیا مکمل آرام آگیا ہے ۔

۲۔ ابھی بھی وہ تعویذ گلے میں ڈالے رکھناکیسا ہے؟

۳۔            تعویذ پہننا صحیح ہے اس کی کوئی مضبوط دلیل ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ جو تعویذ آپ کو دیا گیا ہے وہ جائز ہے یا نہیں ؟اس کا فیصلہ اس پر لکھے ہوئے الفاظ وکلمات کو دیکھ کرکرسکتے ہیں ۔

۲۔ اس کا پتہ آپ ان سے کریں جن سے آپ نے تعویذ لیا ہے۔

۳۔            احادیث میں تعویذ پہننے کی ممانعت بھی ہے اور اجازت بھی ہے ۔ممانعت ان تعویذوں سے متعلق ہے جن کا مضمون خلاف شرع ہو اور اجازت ان سے متعلق ہے جن کا مضمون شریعت کے خلاف نہ ہو لہذا تعویذ کا مضمون اگر خلاف شرع نہ ہو تو تعویذ پہننا جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔چنانچہ فہم حدیث(535/1) میں ہے :

۱۔ ابوعصمہ ؒکہتے ہیں میں نے (حضرت ابوہریرہ ؓ کے داماد)حضرت سعید بن مسیب ؒ سے تعویذ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:

لابأس اذا کان فی ادیم (ترجمہ: جب وہ چمڑے کے اندر سلا ہو تو کچھ حرج نہیں)

۲۔ حضرت جعفر صادق اپنے والد حضرت محمد باقر ؒ کے بارے میں کہتے ہیں :

انه کان لایری بأسا ان یکتب القرآن فی ادیم ثم یعلقه

وہ قرآنی آیت کو لکھ کرچمڑے میں بند کرنے (تاکہ تعویذ کھلانہ رہے اور بیت الخلاء میں اسی طرح جانے سے بے ادبی نہ ہو ) پھراس کو گردن میں لٹکانے میں کچھ حرج نہیں سمجھتے تھے۔

۳۔            حضرت محمد بن سیرین ؒ کے بارے میں ہے:

انه کان لایری بأسا بالشیء من القرآن

یعنی وہ قرآنی تعویذ میں کچھ حرج خیال نہ کرتے تھے ۔

۴۔            حضرت عطاء بن ابی رباح ؒ کا فتوی تھا کہ :

لابأس ان یعلق القرآن

یعنی قرآنی تعویذ لٹکانے میں کچھ حرج نہیں ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved