• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تیار کردہ مال فروخت کر کے اپنی اجرت وصول کرنا

استفتاء

میں نے ایک صاحب کے لیے پینٹیں بنائی، کپڑا ان صاحب نے مجھ کو دیا، طے یہ پایا تھا کہ سلائی کے پیسے 20% ایڈوانس ہوں گے، 30% جب ڈیلیوری ہو گی اور بقایا رقم 45 دن کے بعد ہو گی۔ جب یہ کپڑا ملا اور سینا تھا اس وقت ان صاحب کے حالات ٹھیک تھے اور تقریباً 23 دکانیں تھیں، آج یہ دکانیں بند ہو گئی ہیں اور صرف 7 یا 8 بقایا ہیں۔

حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان صاحب کو مال کی تیاری کے بعد بتایا گیا۔ بڑی مشکل سے انہوں نے (Audit) مال کو چیک کیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اگر آپ کو یہ مال نہیں چاہیے تو میں اس کو بیچ دوں۔ ان کے مینیجر نے لکھ کر دیا کہ بیچ دیں۔ میں نے ان کے مالک کو بتایا کہ اس مال میں کپڑا آپ کا ہے آپ کو شاید علم نہیں۔ اس کے بعد ان کے مالک نے کہا کہ آپ اس کو بیچ نہیں سکتے۔ 2 ماہ سے مال پڑا ہے، میں نے ان سے اب یہ کہا ہے کہ Post Dated چیک دے دیں اور مال لے لیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم چیک نہیں دے سکتے، آپ مال بھیج دیں ہم پیسے دے دیں گے۔ بظاہر ان کا پیسے دینا مشکل لگتا ہے کیونکہ ان کی دکانیں بند ہو رہی ہیں۔

کیا میں یہ مال اب مارکیٹ میں بیچ سکتا ہوں؟

وضاحت مطلوب ہے: آپ اگر مال بیچیں گے تو کس ریٹ پر بیچیں گے؟ کیا صرف سلائی کے عوض یا سلائی و کپڑے کے عوض یا ساتھ میں نفع بھی لیں گے؟ نیز نفع کس کو دیں گے؟

جواب: وضاحت: ہمارا سوال اس بارے میں بھی ہے کہ ہمیں شرعی طور پر کیا کرنا چاہیے۔

وضاحت 2: ان صاحب نے معاہدہ کے مطابق ایڈوانس بھی نہیں دیا تھا اور فی الحال 30% دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور نہ ہی مطالبہ کے باوجود  Post Dated چیک دینے کے لیے تیار ہیں۔ اگر اس صورت حال میں انہیں مال دے دیتا ہوں تو مجھے اپنے پیسے ملنے کی ایک فیصد بھی امید نہیں ہے۔ مال کو اگر بروقت نہ بیچا گیا تو مال خراب ہو جائے گا۔ اگر شریعت مجھے اسے بیچنے کی اجازت نہیں دیتی تو پھر یہ مال ان صاحب کو دے دوں گا کہ  میرا اگر مکمل نقصان ہوتا بھی ہے تو کم از کم کسی کے استعمال میں تو آجائے اور میرے پیسے ڈوبتے ہیں تو کسی کو تو کچھ فائدہ ہو جائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مارکیٹ ویلیو کے مطابق آپ اپنی اجرت کے بقدر کچھ پینٹیں فروخت کر کے اپنی اجرت وصول کر لیں اور باقی پینٹیں مالک کو واپس کر دیں۔

في شرح المجلة (المادة: 482):

يصح للأجير الذي لعمله أثر كالخياط والصباغ والقصار أن يحبس المستأجر فيه لاستيفاء الأجرة إن لم يشترط نسيئتها إلخ.

و فيه أيضاً (مادة: 998):

لو ظهر عند الحاكم مماطلة المديون في أداء دينه حال كونه مقتدراً وطلب الغرماء بيع ماله وتأدية دينه حجر الحاكم ماله وإذا امتنع عن بيعه وتأدية الدين باعه الحاكم وأدى دينه فيبدأ بما أهون في حق المديون بتقديم النقود أولاً فإن لم تف العروض أيضاً فالعقار……. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved