• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ٹیچر نے بچہ کوسکول میں ماردیا تو ہرجانہ فیس وخرچہ وصول کرنا جائز نہیں

استفتاء

میرے بھائی کابچہ امریکن لاسیٹف اسکول میں پلے گروپ سے زیر تعلیم تھا اور اب دسویں جماعت کا طالب علم تھا ،پچھلے دنوں اس کی موت استاد کے تشدد کرنے سے واقع ہوئی،اس کے پاس کمپیوٹر کی کتاب نہیں تھی تو استاد نے اس کو دس منٹ دیئے کہ سبق یاد کر لو تمہارے پاس دس منٹ ہیں،اس بچے کو جتنا سبق یاد ہوا اس نے سنا دیا اور باقی نہ سناسکا جس پر استاد نے غصے میں آکر اس کو بہت زیادہ مارنا شروع کر دیاتھپڑ، مکے مارنے شروع کر دئیے اس کے سر میں اور اس نے اپنے استاد سے کہا کہ میرے پاس پیسے پڑے ہوئے ہیں آپ کو یقین نہیں ہے تو خودکتاب مہیا کروالیں،مارکیٹ میں موجود نہیں ہے، اس نے استاد کی مار سے تنگ آکر کہا کہ استاد جی بہت تکلیف ہو رہی ہے بس کریں اور اس نے اپنا بیگ پکڑنے کی کوشش کی تاکہ وہ گھر آ جائے استاد نے اس بات پر  غصے کا اظہار کیا اور اس کو بالوں سے پکڑ کر زیادہ شدت سے مارنا شروع کر دیا  اوریہ بے چارہ پانی مانگتا رہا، رک رک کر سانس لینے لگا پھر استاد نے اس کا سر دیوار میں مار دیا اور بچہ اپنی ماں اور دادی کو پکارنے لگا جس پر اس کے استاد نے اسکول کے پرنسپل کے سامنے کہا یہ ڈرامے کر رہا ہے ،ابھی اٹھ جائے گا اور وہ اس کی آخری سانس تھی اور وہ فوت ہوگیا، اس بات کو سکول کے پرنسپل نے چھپایا اور ان کے والد کو فون کیا اور کہا کہ آپ  کا بیٹا بے ہوش ہوگیا ہے، آپ فلاں کلینک پر پہنچ جائیں تو جب میرا بھائی اور بھابھی وہاں پہنچے تو ان کا بیٹا ایمولینس میں پڑا ہوا تھا اور موقع پر کوئی ذمہ دار استاد نہیں تھا اور اس کے بعد اس کی جماعت کے بچے نے بتایا کہ اس کو استاد نے مارا ہے اور اسکول کی انتظامیہ نے ہم سے کوئی رابطہ بھی نہیں کیا اور بچوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ استاد بہت سخت ہے، بچوں کو بہت مارتا ہے، اس کی کافی شکایات بھی آئی ہیں بچوں کے والدین کی طرف سے اور ہم کو بھی خود کافی بچوں کے والدین نے بتایا کہ یہ کامران استاد ہمارے بچوں کو بھی مارتا تھا،اسکول کے پرنسپل سے شکایت بھی کی تھی اس کے باوجود بھی استاد کو نہیں نکالا، بلکہ کسی دوسری برانچ میں شفٹ کردیااور6ماہ کے بعد یہ استاد پھر اسی برانچ میں آگیا،یہ اسکول والوں اور اسکول کے مالکان کی بہت بڑی غلطی اور لاپرواہی اور غفلت تھی،اتنی شکایات استادکے خلاف آئیں اور پھر بھی اس کو اسی برانچ میں رکھا، اب جب ہم نے الیکٹرونکس میڈیا پر اسکول کے مالک کا نام دیا کہ اس کو بھی پکڑو اور اس کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہیے کہ اس نے اپنے اسٹاف کی ٹیم کو کیوں نہیں تبدیل کیا، اس بات کے بعد کل اسکول کے مالک نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ ہوں جیسے آپ کہو گے لیکن مہربانی کرکے میرے اسکول کا نام نہ لو، میرے اسکول میں بہت زیادہ بچے ہیں، میں آپ کو وکیل کی فیس دینے کے لیے بھی تیار ہوں ،آپ مہربانی کر کے میرے اسکول کا نام نہ لیں۔

تو اب ہمارے کچھ رشتہ دار اس بات پر مجبور کر رہے ہیں اس مالک اسکول سےوکیل کی فیس بھی لی جائے اور اس سے ہرجانہ بھی لیا جائے  کہ استاد کی اتنی شکایات موصول ہوئیں بچوں کے ماں باپ کی طرف سے، اس کے باوجوداس نے استاد کوتبدیل نہیں کیا اور لاپرواہی کی، جس کی وجہ سے ہمارا بچہ اس دنیا سے تشدد کی وجہ سے چلا گیا اور دوسری وجہ ہمارے رشتہ دار کہتے ہیں کہ بچے کوپڑھایا اور اس پر محنت کی دس سال اسکول کو اس کی فیس اور دیگر اخراجات دیتے رہے، اب اس نے اپنے ماں،باپ کاسہارا بنناتھاتو مالک اسکول سے ہر جانہ بھی وصول کیا جائے تاکہ اسکول کے مالک کو احساس ہو اس کی غفلت اور لاپرواہی کی سزا ہم لوگوں کو جو ملی ہے آئندہ کوئی ماں باپ اس تکلیف کو نہ دیکھے اور جوا سکول کا مالک ہے وہ اپنی غفلت کی وجہ سے کسی کو نقصان نہ پہنچا سکے تو علماء کرام کی اس ہرجانے کے بارے میں کیا رائے ہے ؟اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اسکول کے مالک کے خلاف اس حد تک کیس کیا جاسکتا ہے جتنی اس نے لاپرواہی کی۔ آگے عدالت جو چاہے اس کو سزا دے، تاہم مذکورہ صورت میں ہرجانے کا مطالبہ کرنا یا بچے کو پڑھانے میں اب تک جو اخراجات ہوئے مالک اسکول سے ان کا مطالبہ کرنا جائز نہیں،کیونکہ یہ مالی جرمانے کی صورت ہے جو کہ جائز نہیں، البتہ اتنا کیا جاسکتا ہے کہ فی الحال ہرجانہ لے لیا جائے تاکہ مالک اسکول کو اپنی غلطی کااحساس ہو اور بعد میں خواہ بتا کریا بغیر بتائے اسے ہرجانے کی رقم واپس کر دی جائے۔

نوٹ:یہ جواب پرنسپل سے متعلق ہے، باقی رہا خود اس استاد کا معاملہ جو اصل میں مورد الزام ہے تو اس کے بارے میں چونکہ سائل نے پوچھا نہیں،اس لیے اس سے جواب میں از خود تعرض نہیں کیا گیا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved