- فتوی نمبر: 33-38
- تاریخ: 10 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
1۔ہم کل 6 بہن بھائی تھے یعنی چار بھائی اور دو بہنیں ہیں، اب ہم تین بھائی اور ایک بہن موجود ہیں، گذشتہ ماہ یعنی 13 جنوری 2025ء کو محترم والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔
ان کی ملکیت میں ایک مکان پانچ مرلے کا ہے اور کچھ حساب کتاب کے بعد کچھ نقدی ہوگی جو ابھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کتنی ہوگی؟ برائے مہربانی وراثت کی تقسیم کے سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔
2۔ان میں سے ایک بہن اور ایک بھائی کا دو سال پہلے انتقال ہوگیا ہے اور والدہ کا بھی دو سال پہلے انتقال ہوگیا ہے۔
3۔وراثت میں صرف بہن، بھائی شامل ہوں گے یا کوئی اور رشتہ دار بھی شامل ہوگا ؟
4۔فوت شدہ بہن کی ایک بیٹی اور فوت شدہ بھائی کے دو بیٹے اور بیٹی بھی زندہ ہے۔
5۔ فوت شدہ بیٹے کی بیوی بھی زندہ ہے۔
6۔ والد صاحب کی استعمال شدہ چیزیں مثلا کپڑے ، جوتے بستر کچھ کتب ودیگر چھوٹی چھوٹی اشیاء ان کو کس طرح تقسیم کریں گے؟
وضاحت مطلوب ہے: مرحوم کے والد یا والدہ حیات ہیں یا نہیں؟ اگر حيات نہیں ہیں تو کب فوت ہوئے ہیں؟ مرحوم سے پہلے یا بعد میں؟
جواب وضاحت: مرحوم کے والدین مرحوم کی زندگی ہی میں وفات پاچکے تھے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں مرحوم کے مکان اور نقدی کے کل 7 حصے کیے جائیں گے جن میں سے دو حصے (28.57 فیصد) مرحوم کے زندہ بیٹوں میں سے ہر ایک کو اور ایک حصہ (14.28 فیصد) مرحوم کی زندہ بیٹی کو ملے گا۔
صورت تقسیم درج ذیل ہے:
7
3 بیٹے | 1 بیٹی |
2+2+2 | 1 |
2۔مرحوم کی زندگی میں انتقال کرنے والے (یعنی زوجہ اور ایک بیٹا اور ایک بیٹی )کو وراثت میں حصہ نہیں ملے گا
3۔مذکورہ صورت میں مرحوم کے ورثاء میں صرف تین زندہ بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہوگی اور رشتہ داروں کو حصہ نہیں ملے گا۔
4۔مرحوم کے پوتے اور پوتیاں بھی شرعاً حق وراثت میں شامل نہیں ہوں گے اور نواسی بھی شامل نہیں ہوگی۔
5۔مرحوم کی بہو(فوت شدہ بیٹے کی بیوی) کو بھی وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔
6۔مرحوم کی استعمال شدہ چیزیں کپڑے، جوتے وغیرہ سب ترکہ میں شامل ہیں ، یہ اشیاء باہمی رضامندی سے ورثاء آپس میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
شامی (10/525) میں ہے:
وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما ………. ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة
سراجی (ص:19) میں ہے:
والعصبة كل من يأخذ ما أبقته أصحاب الفرائض وعند الانفراد يحرز جميع المال.
المبسوط للسرخسی (29/141) میں ہے:
فإن اجتمع أولاد الصلب وأولاد الابن فإن كان في أولاد الصلب ذكر فلا شيء لأولاد الابن ذكورا كانوا، أو إناثا أو مختلطين لأن الذكر من أولاد الصلب مستحق لجميع المال باعتبار حقيقة الاسم
تنویر الابصار (10/533) میں ہے:
ويستحق الإرث برحم ونكاح وولاء والمستحقون للتركة عشرة أصناف مترتبة
شامی(10528) میں ہے:
لأن التركة فى الاصطلاح ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية
ہدایہ (4/35) میں ہے:
القسمة في الأعيان المشتركة مشروعة، لأن النبي عليه الصلاة والسلام باشرها في المغانم والمواريث، وجرى التوارث بها من غير نكير.
مسائل بہشتی زیور (2/520) میں ہے:
ذوی الارحام میت کے وہ رشتہ دار ہوتے ہیں کہ جب ذوی الفروض بھی موجود نہ ہو اور کوئی عصبہ بھی نہ ہو تب ان کو میراث میں حصہ ملتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved