• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تین مرتبہ “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” کہنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ !      نہایت ادب سے گزارش ہے کہ میری شادی کو تقریبا ڈیڑھ سال ہوا ہے ۔شادی سے پہلے ہم تقریبا سات سال رابطے میں رہے ۔گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود میں نے اپنے گھر والوں کو ضد کر کے منایا اور سب رشتے داروں کے منع کرنے کے باوجود وہیں  شادی کی۔ شادی کے بعد سے کاروبار تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا ۔اس بات پر میری بیوی کا مجھ سے جھگڑا رہتا تھا ۔ہماری سات ماہ کی بیٹی ہے اس کے ہونے کے بعد سے میری بیوی کا مجھ سے اس کے اخراجات کو لے کر جھگڑا دن بدن بڑھنے لگا یہاں تک کہ میری بیوی مجھے ہر وقت اپنے منہ سے کہنے لگی کہ اگر ہماری ذمہ داری اٹھانا مشکل لگ رہا ہے تو مجھے طلاق دے دو ۔اس کو سب نے سمجھایا مگر اس کا یہی مطالبہ رہا میں نے اس کو تنگ آکر کہا   “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں میں تمہیں طلاق دیتا ہوں میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ” میری بیوی نے اپنی والدہ کو فون کر کے بلایا تو اس کی والدہ اور بہن آئیں،  انہوں نے سب گھر والوں کو بہت برا بھلا کہا ،میری والدہ کو مار کر زخمی کر دیا اور میری بہن کو بھی مارا جس کی وجہ سے ان کے ہاتھوں پر نیل پڑ گئے ہیں۔ پھر تھانے میں جا کر پرچہ کٹوایا اور پولیس والوں نے کہا  ہےکہ اگر  ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دو تو ایک ہی طلاق  شمار ہوتی ہے۔ اور میری بیوی رجوع کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ میں اس کے بعد تحریری طلاق نامہ بھی بھیج چکا ہوں جس کی نقل ساتھ لف ہے۔ ہماری رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  شوہر کے یہ الفاظ کہ ” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” تین مرتبہ کہنے سے   تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں لہٰذا اب نہ صلح ہوسکتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش ہے ۔تین طلاقیں چاہے ایک ہی دفعہ دی جائیں یا الگ الگ دی جائیں تینوں واقع ہو جاتی ہیں،جمہور اہل علم صحابہ رضی اللہ عنہم کا اور مجتہدین اور محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی  ہیں۔

صحیح مسلم ( رقم الحدیث 3656)  میں ہے :

عن نافع؛ أن ابن عمر  ……..وأما أنت طلقتها ثلاثا. فقد عصيت ربك فيما أمرك به من طلاق امرأتك. وبانت منك.

ترجمہ : نافع  رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (اکٹھی تین طلاق دینے والے سے )فرمایا تم نے اپنی بیوی کو (اکٹھی )تین طلاقیں دی ہیں تو بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں جو تمہارے رب کا حکم (یعنی بتایا ہوا طریقہ ہے) اس میں تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی تم سے طلاق مغلظ کے ساتھ جدا ہو گئی ہے۔

سنن ابی داؤد (رقم الحدیث:2197)  میں ہے  :

عن مجاهد، قال: كنت عند ابن عباس، فجاءه رجل فقال: إنه طلق امرأته ثلاثا، قال: فسكت حتى ظننت أنه رادها إليه، ثم قال: ينطلق أحدكم فيركب الحموقة ثم يقول: يا ابن عباس، يا ابن عباس، وإن الله قال: {ومن يتق الله يجعل له مخرجا} [الطلاق: 2] وإنك لم تتق الله فلا أجد لك مخرجا، عصيت ربك، وبانت منك امرأتك

ترجمہ :مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس (بیٹھا) تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو (اکٹھی) تین طلاقیں دے دی ہیں تو (کیاکوئی گنجائش ہے؟ اس پر) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اتنی دیر تک خاموش رہے کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ (حضرت کوئی صورت سوچ کر) اسے اس کی بیوی واپس دلا دیں گے، پھر انہوں نے فرمایا: تم میں سے ایک شروع ہوتا ہے تو حماقت پر سوار ہو جاتا ہے (اور تین طلاقیں دے بیٹھتا ہے) پھر آ کر کہتا ہے اے ابن عباس! اے ابن عباس! اے ابن عباس! (کوئی راہ نکالیے) کی دہائی دینے لگتا ہے ۔بے شک  اللہ کا فرمان ہے: ” و من يتق الله يجعل له مخرجاً ” (جو کوئی اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی راہ نکالتے ہیں) تم نے تو اللہ سے خوف نہیں کیا  (اور تم نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جو کہ گناہ کی بات ہے) تو میں تمہارے لیے کوئی راہ نہیں پاتا (اکٹھی تینوں طلاقیں دے کر) تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہو گئی ہے۔

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله  عز وجل  {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved