• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تین طلاقوں کی ایک صورت کا حکم

استفتاء

میرا نام **** ہےمیری شادی کو دو سال اور دو ماہ ہو گئے ہیں اس دوران ہمارے درمیان بہت لڑائی جھگڑے ہوئےاور لڑائی جھگڑے کے دوران میری بیوی نے متعدد بار  علیحدگی کا مطالبہ کیا ،میری زوجہ مجھ سے  اس طرح مطالبہ کرتی تھی “میں نے ساتھ نہیں رہنا، مجھے چھوڑ دو “اور میں نے اس کے جواب میں کئی مرتبہ کہا “ٹھیک ہے ،جاؤ،چلی جاؤ”۔اور ہر مرتبہ  میری طلاق کی نیت نہیں ،اس کے بعد ہم اکٹھے رہتے رہے ،اب ایک مہینہ قبل دوبارہ ہماری لڑائی ہوئی اور پھر سے  میری زوجہ نے مجھ سے  طلاق کا مطالبہ کیا جس پر میں نے تین مرتبہ کہا “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ” ،اس کے بارے میں رہنمائی فرمادیں یہ سارا معاملہ غیر ارادی طور پر ہوا اس بارے میں رہنمائی فرمادیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور بيوی شوہر پر حرام  ہو گئی ہے، اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ ہی رجوع کی گنجائش ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں جب شوہر نے بیوی کے مطالبے “میں نے نہیں رہنا،مجھے چھوڑ دو”کے جواب میں  کہا”ٹھیک ہے، چلی جاؤ”تو “ٹھیک”ہے کہنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ “میں تمہیں طلاق دے دوں گا”یعنی یہ وعدہ طلاق ہےاور “چلی جاؤ” کہنے سےبھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ یہ  کنایات طلاق  کی پہلی قسم میں سے ہیں ،جس کا حکم یہ ہے کہ ان سے طلاق کاوقوع ہرحال میں شوہر کی نیت پر موقوف ہوتا ہے،اور مذکورہ صورت میں  چونکہ شوہر نے طلاق کی  نیت  نہیں  کی تھی اس لیے اس سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،لیکن اس کے بعد جب شوہر نے”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ” تین مرتبہ  کہا تو یہ الفاظ چونکہ صریح ہیں ان سے بلا نیت طلاق واقع ہو جاتی ہے  اور یہ الفاط چونکہ تین مرتبہ کہے   تھے اس لیے ان سے تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں ۔

بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:

‌وأما ‌الطلقات ‌الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

بدائع الصنائع(3/101) میں ہے:

أما ‌الصريح فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله: ” أنت طالق ” أو ” أنت الطلاق، أو طلقتك، أو أنت مطلقة ” مشددا، سمي هذا النوع صريحا.

رد المحتار  (3/ 301)میں ہے:

والحاصل أن ‌الأول ‌يتوقف على النية في ‌حالة ‌الرضا والغضب والمذاكرة.

ہندیہ (1/ 356)میں ہے:

ولو قالت أنا طالق فقال ‌نعم طلقت ولو قاله في جواب طلقني لا تطلق.

البحر الرائق  (3/ 274)میں ہے:

ولو ‌قالت ‌طلقني فقال ‌نعم لا، وإن نوى.

التحقیق الباہر شرح الاشباہ والنظائر(2/680)میں ہے:

(ولو ‌قالت ‌طلقني فقال ‌نعم لا)تطلق( وإن نوى)لأن معنى (نعم)حینئذ :أطلق فیکون وعدا بالطلاق،لا تنجیزا.

فقہ اسلامی(ص:125)میں ہے:

پہلی قسم :وہ الفاظ جن میں طلاق کے معنی کا بھی احتمال ہے اور طلاق کے مطالبے کو مسترد کرنے کے معنی کا بھی احتمال ہےمثلا کہا تو نکل جا۔۔تواٹھ کھڑی   ہو،تو دور ہو جا،تو چلی جا۔

پہلی قسم  کے الفاظ میں ہر حال میں طلاق  کی نیت ہو گی تو طلاق ہو گی ورنہ نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved