• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین طلاق کے بعد اسی لڑکی سے دوبارہ  نکاح کرنے کا حکم

استفتاء

جناب میں نے اپنی بیوی کو دو تین سال پہلے طلاق دی۔ اب دو سال بعد پھر اس نے شادی کی خواہش کی  ہے حضرت کوئی شرعی طریقہ  بیان فرما دیجئے۔

وضاحت مطلوب ہے:

  • طلاق کس طرح دی تھی تحریری یا زبانی؟اگر زبانی تھی تو الفاظ کیا تھے ؟

2) ایک طلاق دی تھی یا زیادہ ؟ اگر زیادہ دی تھیں تو کتنے کتنے عرصے بعد دی تھیں؟ نیز رجوع کیا تھا یا نہیں؟

3) کیا آپ کے طلاق دینے کے بعد آپ کی بیوی کی شادی دوسری جگہ ہوئی تھی یا نہیں؟

4) اگر تحریری دی تھی تو تحریر کی کاپی (نقل) ساتھ لف کریں۔

جواب وضاحت:

1) طلاق زبانی دی تھی اور طلاق کے الفاظ "میں تجھے طلاق دیتا ہوں”تھے۔

2) میری بیوی مجھ پر شک کرتی تھی کہ میرا بھابھی کے ساتھ چکر ہے۔ میں نے بہت سمجھایا تم  شک نہ  کیا کرو میرا کچھ نہیں جائے گا اس طرح تمہارا اور میرا گھر خراب ہو جائے گا اور گھر میں اس طرح خرابی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ میرا دماغ بہت خراب رہنے لگا۔پھر میں نے وارننگ دی اور ایک طلاق دی  اور 18 دن بعد رجوع کر لیا اور میاں بیوی کی طرح رہنے لگے  پھر تقریبا دو یا تین مہینے بعد دوسری طلاق دی اور دو تین  دن بعد ہی رجوع کر لیا پھر اس کے دو یا تین مہینے بعد تیسری طلاق  دے دی۔

3) دوسری جگہ شادی نہیں ہوئی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  چونکہ آپ اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں دے چکے ہیں جن کی وجہ سے بیوی آپ پر حرام ہو چکی ہےلہذااب دوبارہ نکاح کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ البتہ اگر مذکورہ عورت کا کسی اور مرد سے نکاح ہو اور وہ مرد کم از کم ایک دفعہ ہمبستری کر کے طلاق دےد ے یا اس کا انتقال ہو جائے اور پھر عورت عدت گزار لے تو اس کے بعد آپ کے لئے اس عورت سے نکاح کرنا جائز ہو گا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں  جب شوہر نے پہلی باریہ جملہ استعمال کیا کہ "میں تجھے طلاق دیتا ہوں” تو اس سےایک رجعی طلاق واقع ہو گئی کیونکہ یہ جملہ طلاق کے لئے صریح ہے اور اس کے بعد بیوی کی عدت شروع ہو گئی لیکن شوہر نے 18 دن بعد عدت میں ہی رجوع کر لیاتھا جس کی وجہ سے نکاح باقی رہا ۔ اس کے بعد شوہر نے جب دوسری بار یہی جملہ استعمال کیا تو اس سے دوسری رجعی طلاق واقع ہوئی لیکن شوہر  نے دوسری طلاق کے بعد بھی عدت میں ہی رجوع کر لیا تھا اس لئے نکاح باقی رہا۔ پھر اسکے بعد شوہر نے تیسری دفعہ یہی جملہ استعمال کیا تو اس سے تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی  ۔

بدائع الصنائع، كتاب الطلاق، فصل فی  بیان حكم الطلاق (طبع: مكتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 3صفحہ نمبر 283) میں ہے:

"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد”

الجوھرۃ النیرہ،کتاب الرجعۃ (طبع: مکتبہ حقانیہ ملتان، 2 /124) میں  ہے:

"هي المراجعة ، وهي عبارة عن ارتجاع المطلق مطلقته على حكم النكاح الأول ، وهي تثبت في كل مطلقة بصريح الطلاق بعد الدخول ما لم يستوف جملة عدد الطلاق عليها ولم يحصل في مقابلة طلاقها عوض ويعتبر بقاؤها في العدة قال رحمه الله ( وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض ) إنما شرط بقاؤها في العدة لأنها إذا انقضت زال الملك وحقوقه فلا تصح الرجعة بعد ذلك وقوله رضيت أو لم ترض ؛ لأنها باقية على الزوجية بدليل جواز الظهار عليها والإيلاء واللعان والتوارث ووقوع الطلاق عليها ما دامت معتدة بالإجماع وللزوج إمساك زوجته رضيت أو لم ترض وقد دل على ذلك قوله تعالى { وبعولتهن أحق بردهن } سماه بعلا وهذا يقتضي بقاء الزوجية بينهما”

الفتاوى العالمگیریہ، کتاب الطلاق،الباب الثانی فی ایقاع الطلاق، الفصل الاول فی الطلاق الصریح (طبع: مکتبہ رشیدیہ، 198/2)میں ہے:

"وهو كأنت طالق ومطلقة وطلقتك وتقع واحدة رجعية وإن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئا كذا في الكنز”

الفتاوى العالمگیریہ، کتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعۃ، فصل فی ما تحل بہ المطلقۃ (طبع: مکتبہ رشیدیہ،411/2)میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا فی الهداية”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved