• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تیسری طلاق میں میاں بیوی کے اختلاف کا حکم

استفتاء

میری شادی کو آٹھ سال ہو گئے ہیں شادی کے ایک سال بعد میرے شوہر نے مجھے غصے میں ایک طلاق دی تھی،پھر  چند دن بعد ہماری صلح ہو گئی اور ہم ساتھ رہنے لگ گئے،پھر کچھ مہینے گزرے اور میرے شوہر نے گھر والوں کی وجہ سے مجھے ایک اور طلاق دے دی۔ میں نے اپنے گھر والوں کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا ،غصے میں کہا ہے، صلح کر لو، ہم نے 60 لوگوں کو کھانا کھلایا اور پھر صلح کر لی آج سات ، آٹھ سال کے بعد ہماری پھر سے زیادہ لڑائی ہوئی اور میرے شوہر نے مجھے کہا کہ تم دفع ہو جاؤ تمہیں طلاق بھیج دوں گا، میں نے کہا” کیوں جاؤں میں؟ جب طلاق دو گے تب چلی جاؤں گی” اس کے بعد ان کے الفاظ کچھ یوں تھے پنجابی میں کہا کہ:”تو جا میں تینوں طلاق دینا واں” اب وہ کہہ رہے ہیں کہ میرا مطلب تھا کہ تم جاؤ میں دے دوں گا ،مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی میں ان کے نکاح میں ہوں یا نہیں؟ ہمارے تین بچے ہیں وہ ان کی قسم کھا رہے ہیں کہ میں نے نہیں دی میری بات کا مطلب کچھ اور تھا اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

وضاحت مطلوب ہے:1-شوہر نے جو پہلے دو طلاقیں دی ہیں ان کے الفاظ کیا تھے؟ 2-اس بارے میں شوہر کا موقف اور رابطہ نمبر ارسال کریں، 3۔پہلی اور دوسری طلاق کے بعد کتنے دنوں کے اندر آپ کی صلح ہو جاتی تھی؟

جواب وضاحت: 1۔پہلی دوطلاقوں میں انہوں نے صاف کہا تھا” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں "اور تیسری دفعہ کہا تھا "جا میں تینوں طلاق دینا واں”اب وہ اس بات کو مان نہیں رہے  ۔ 3۔دو سے تین دن کے اندر صلح ہوجاتی تھی۔

نوٹ:بیوی سے مزید وضاحت لینے کے لیے فون کیا ہے لیکن انہوں نے نہیں اٹھایا۔

شوہر کا بیان:پہلی دو دفعہ طلاق دینے کی بات درست ہے،لیکن تیسری دفعہ پنجابی کے الفاظ میں طلاق کا نہیں کہا تھا بس یہ کہا تھا کہ "ایتھوں چلی جا” اس سے زیادہ نہیں کہا یہ اللہ کو حاضر وناظر جان کر بتا رہا ہوں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  صورت میں بیوی کے حق میں تیسری طلاق بھی واقع ہو چکی ہے جس کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے  ، لہذا بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں جب شوہر نے مختلف موقعوں پر دو مرتبہ یہ جملہ کہا کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” اس سے دو  رجعی طلاقیں واقع ہو گئیں جن کے بعد عدت میں رجوع کرنے سے نکاح قائم رہا،پھر اس کے بعد جب تیسری مرتبہ بیوی کے  بیان کے مطابق شوہر نے یہ جملہ کہا کہ”جا میں تینوں طلاق دینا واں” تو اس سے بیوی کے حق میں تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی ،کیونکہ عورت طلاق کے معاملے میں قاضی کی حیثیت رکھتی ہے،لہذا اگر عورت شوہر سے طلاق کے الفاظ خود سن لے تو عورت کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے،لہذا مذکورہ صورت میں چونکہ عورت کا مؤقف یہ ہے کہ تیسری مرتبہ شوہر نے یہ جملہ کہا تھا کہ”جا میں تینوں طلاق دینا واں” جو طلاق کے لیے صریح ہے اس لیے  اس سے بیوی کے حق میں تیسری طلاق بھی واقع ہو چکی ہے۔

بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:

‌وأما ‌الطلقات ‌الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

بدائع الصنائع(3/101) میں ہے:

أما ‌الصريح فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله: ” أنت طالق ” أو ” أنت الطلاق، أو طلقتك، أو أنت مطلقة ” مشددا، سمي هذا النوع صريحا؛ لأن الصريح في اللغة اسم لما هو ظاهر المراد مكشوف المعنى عند السامع من قولهم: صرح فلان بالأمر أي: كشفه وأوضحه، وسمي البناء المشرف صرحا لظهوره على سائر الأبنية، وهذه الألفاظ ظاهرة المراد؛ لأنها لا تستعمل إلا في الطلاق عن قيد النكاح فلا يحتاج فيها إلى النية لوقوع الطلاق؛ إذ النية عملها في تعيين المبهم ولا إبهام فيها

ردالمحتار(4/449)میں ہے:

والمرأة كالقاضي ‌إذا ‌سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.

فتاوی محمودیہ(13/298)میں ہے:

سوال:** نے کہا تین مرتبہ”میں تمہیں طلاق دے چکا ہوں "زوجہ کا باپ لڑکی کو اپنے ہمراہ لے گیا،**طلاق سے منکر ہےاورکہتا ہے کہ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ اگر تم لے گئے تو  میں طلاق دے دوں گا۔۔۔۔زوجہ الفاظ مذکور سابقہ کا خود سننا ظاہر کرتی ہےصورت مذکورہ  میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟اور نکاح جدید کس طرح ممکن ہے؟

جواب:جب عورت نے 3مرتبہ طلاق دینا خود سنا ہےتو پھر اس کے لیے** کواپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں۔ جو جائز صورت بھی عورت کے قبضہ میں ہو**سے بچنے کی اختیار کی جاوے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved