- فتوی نمبر: 9-59
- تاریخ: 01 جون 2016
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
آج سے تقریباً سال پہلے میں نے اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑا کے بعد اشٹام فروش کے پاس گیا اور اسے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ڈرانا ہے۔ اس لیے اسے نوٹس دینا ہے طلاق کا۔ اس نے سادے پیپر پر صرف لکھ دیا کہ ’’آپس میں صحیح زندگی بسر نہ ہونے کی وجہ سے طلاق کا فیصلہ لیتا ہوں‘‘۔ اس پیپر پر نہ میرے دستخط تھے نہ بیوی کا نام تھا۔ البتہ میرا نام اس پر لکھا تھا۔ اور یہ تحریر میں بیوی کو دے کر آ گیا۔ یہ نوٹس اگلے دن جب ہماری صلح ہوئی تو پھاڑ دیا گیا اب الفاظ اور عبارت پوری طرح یاد نہیں ہے۔
اس کے بعد ڈیڑھ سال بعد لڑائی ہوئی تو میں نے اب پہلا نوٹس 21 مارچ 2016۔ دوسرا نوٹس ایک ماہ چار دن بعد 25 تاریخ کو روانہ کر دیا۔ یہ دونوں نوٹس ساتھ لف ہیں۔
اب ہم صلح کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔
پہلے طلاق نامہ کے الفاظ: ’’۔۔۔ لہذا میں اپنی بیوی*** دختر*** کو یکبار پہلی طلاق دیتا ہوں، روبرو گواہان طلاق دے کر اپنے نفس پر حرام قرار دے کر آزاد کرتا ہوں۔ مطلقہ اپ نے قول و فعل کی خود ذمہ دار ہے‘‘
دوسرے طلاق نامہ کے الفاظ: ’’۔۔۔ لہذا میں اپنی بیوی*** دختر ***کو یکبار دوئم طلاق دیتا ہوں، روبرو گواہان طلاق دے کر اپنے نفس پر حرام قرار دے کر آزاد کرتا ہوں۔ مطلقہ اپ نے قول و فعل کی خود ذمہ دار ہے‘‘
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں دو طلاق بائن واقع ہو گئیں ہیں۔ دوبارہ اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کر لیں۔ آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی رہے گا۔
توجیہ: 1۔ پہلی دفعہ خاوند نے جو تحریر لکھوائی تھی وہ چونکہ غیر مرسوم ہے اور تحریر کردہ الفاظ بھی حتمی نہیں اور خاوند کی نیت بھی طلاق کی نہیں تھی۔ لہذا ان الفاظ سے طلاق واقع نہ ہوئی۔
2۔ البتہ دوسری دفعہ کے طلاق نامہ میں خاوند نے پہلے صریح طلاق کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن سے ایک طلاق رجعی واقع ہوئی۔ اس کے بعد جو الفاظ استعمال کیے وہ پچھلی طلاق پر عدد میں اضافہ نہیں کرتے بلکہ وصف میں لاحق ہو کر اسے بائنہ بنا دیں گے۔
3۔ تیسری دفعہ کے طلاق نامے میں دی گئی طلاق بائنہ ہے اور اسے پہلی کی خبر بنانا ممکن نہیں۔ لہذا وہ پہلی بائنہ کو لاحق ہو گی۔ چنانچہ کل دو طلاق بائن واقع ہوں گی۔
في رد المحتار:
و إن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع و إلا لا.
و في رد المحتار (4/ 442):
و إن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو، ثم المرسومة لا تخلو إما إن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق فكما كتب هذا يقع الطلاق و تلزمها العدة من وقت الكتابة.
و فيه أيضاً ():
و لو استكتب من آخر كتاباً بطلاقها و قرأه على الزوج فأخذه الزوج و ختمه و عنونه و بعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه.
و في خلاصة الفتاوى (2/86):
لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن برمن حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائناً و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن.
و في الهداية مع الفتح (4/ 157):
و إذا كان الطلاق بائناً دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة و بعده انقضائها لأن حل المحلية باق باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله
و في التنوير مع الدر (4/ 531):
لا يلحق البائن البائن إذا أمكن جعله إخباراً عن الأول كأنت بائن بائن، أو أبنتك بتطليقة فلا يقع، لأنه إخبار فلا ضرورة في جعله إنشاء، بخلاف أبنتك بأخرى أو أنت طالق بائن. و في الشامية تحت قوله (بخلاف أبنتك بأخرى) أي لو أبانها أولاً ثم قال في العدة أبنتك بأخرى وقع، لأن لفظ أخرى مناف لإمكان الإخبار بالثاني عن الأول….. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved