• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ٹیلی فون پرنکاح، ایجاب و قبول بلفظ "قبول ہے” ( )

استفتاء

[1] :  تفصیلی جواب

ٹیلی فون پر کیا ہوا نکاح جبکہ اسپیکر کھلا ہو اور لڑکے کی آواز گواہوں کو بھی سنائی دے رہی ہو درست ہوتا ہے۔

مگر صورت مسئولہ میں اس سے ہٹ کر دو وجوہات سے نکاح نہیں ہوا۔

۱۔ مولوی صاحب کا یہ جملہ کہ” آپ کو قبول ہے” استفہام ہے اور استفہام ایجاب نہیں ہوتا۔ جیسا کہ کفایت المفتی  میں ہے:

ایجاب میں” دیجاتی ” ہے کہنے سے نکاح منعقد ہوا یا نہیں؟

سوال: ایک شخص وکیل بالنکاح مقرر ہو کر مع دوگواہ کے آیا اور اس نے ان الفاظ میں اپنی وکالت کا اظہار فرمایا کہ مجھ کو عبد اللہ نے اپنی لڑکی صابرہ کا وکیل بالنکاح مقرر کیا ہے جس کے یہ  دونوں گواہ ہیں ( گواہان کی طرف اشارہ کر کے بتلایا ) اور گواہان نزدیک ہی موجود تھے۔ وکیل بالنکاح نے ان الفاظ میں ایجاب وقبول کرایا ( مسماة دختر عبد اللہ کی بعوض پانچ سو روپے کے آپ کی زوجیت میں دی جاتی ہے ، قبول ہے؟ )۔

اس کے جواب میں نوشہ نے کہا (قبول  کیا ) اس طرح سے تین بار مذکور الصدر عبارت میں ایجاب وقبول ہوا۔ا ب مولوی عبد المنان صاحب فرماتے ہیں کہ یہ نکاح درست نہیں ہوا کیونکہ مضارع مجہول کے صیغہ سے ایجاب کرایا گیا۔ کیونکہ ( دی جاتی ہے ) مضارع مجہول ہے اور مضارع مجہول سے ایجاب درست نہیں لہذا تجدیدنکاح کی ضرورت ہے اور مولوی عبد الجبار صاحب فرماتے ہیں کہ نکاح صحیح و درست ہوگیا تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے ( دی جاتی ہے ، قبول کیا ) مضارع اور ماضی دونوں معنوں کا مجموعہ ہے بلکہ آخر کا فعل فعل ماضی ہی ہے۔ ( دی جاتی ہے، قبول کیا ) اور قبول کا فعل بھی فعل ماضی ہی ہے (قبول کیا ) لہذا بطریق احسن ایجاب وقبول ہوا اور نکاح کی درستی میں توکوئی کلام وشک و شبہ ہی نہیں ہے ۔ بہر کیف دونوں حضرات میں کون صاحب ہیں اور کون صاحب مخطی۔ نکاح صحیح ہوا یا نہیں؟

جواب: صحیح عبارت ایجاب  کی یہ تھی” کہ مسماة صابرہ دختر عبد اللہ کو بعوض پانچ سو روپے (صما ) مہر کے میں نے تمہاری زوجیت میں دیا۔ دی جاتی ہے بے شک مضارع مجہول ہے اور قبول کیا ایجاب میں شامل نہیں وہ تو استفہام ہے یعنی کیا تم نے قبول کیا اور ستفہام ایجاب نہیں۔ اگر چہ یہ نکاح  منعقد ہوگیا۔

کیونکہ صیغہ حال جب کہ اس سے انشاء کے معنی مراد ہوں قائم مقام  ماضی کے ہوجاتا ہے اور دینے والا ذکر وکالت سے متعین ہو جاتا ہے تاہم احتیاطاً تجدیدایجاب وقبول کر لینا بہتر ہے۔(کفایت المفتی)

اگر لڑکے کا کلام ” مجھے قبول ہے” کو ایجاب بنایا جائے تو اس کے بعد قبول نہ پایا گیا۔

2۔ اگر مولوی صاحب کے کلام کو ایجاب تسلیم کر لیا جائے تو نکاح کے منعقد ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ ایجاب و قبول دونوں میں سے ایک ماضی میں ہو جبکہ یہاں دونون حال ہیں۔ جیسا کہ امدا د الاحکام میں ہے:

سوال: زید کا نکاح ہونے لگا وکیل بالنکاح نے کہا کہ فلاں شخص نے اپنی فلاں لڑکی کا وکیل بنا کر بھیجا ہے۔ اور اس کے یہ دو گواہ ہیں۔ "میں نے اس کو بعوض ایک سکہ رائج الوقت آپ کی زوجیت میں دیا”۔ زید بجائے اس کے کہ "قبول کیا "کہے، "قبول ہے "کہہ دیا تو نکاح منعقد ہوا یا نہیں؟ بظاہر فقہاء کی عبارت "النکاح ینعقدبالايجاب و لفظهما ماض أو مستقبل و ماض” مقتضی ہے کہ نکاح انعقاد نہو کیونکہ قبول ہے نہ ماضی  اور نہ مستقبل۔

جواب: صیغہ حال بھی قبول میں کافی  ہے۔صرح بہ فی الدر ( 2/ 43 )

*** بنت *** کا نکاح خادم*** ولد*** کے ساتھ آج سے نو ماہ قبل فون پر نکاح ہوا تھا  ( جبکہ لڑکا کویت میں تھا)۔ حالانکہ علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ وکیل مقرر کیے بغیر فون پر نکاح جائز نہیں ۔ جبکہ لڑکے نے اپنا کوئی وکیل مقرر بھی نہیں کیا اور اب لڑکی اس لڑکے کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ( جبکہ تاحال رخصتی بھی نہیں ہوئی)۔ اور لڑکا مصر ہے کہ وہ کویت سےآکر لڑکی کو اپنے پاس رکھے گا جبکہ نکاح کے کاغذات بھی مکمل ہو چکے ہیں اور لڑکا عدم رخصتی کی صورت میں نکاح نامہ سمیت عدالت میں جانے کے لیے تیار ہے۔ اب آپ بتائیے کہ شرعی مسئلہ کیا ہے اور شریعت مذکورہ بالا صورت میں ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے؟

فون مولوی صاحب کے کان کے ساتھ ہی تھا، صرف مولوی صاحب ہی لڑکے کو کہہ رہے تھے کہ منظور ہے وہ کہہ رہا تھا ہاں منظور ہے۔ فون اوپن تھا سب سن رہے تھے اور کویت کا ہمیں کچھ علم نہیں کہ اس کے ساتھ کوئی تھا یا نہیں؟ اس نے فون کاآواز کھولا ہوا تھا یا نہیں؟

وضاحت: سائل نے فون پر وضاحت کی کہ مولوی صاحب کے الفاظ یہ تھے کہ” *** بعوض ایک لاکھ روپیہ مہر کے آپ کو قبول ہے؟ جواب میں لڑکے نے کہا کہ ” مجھے قبول ہے”۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ٹیلی فون پر کیا ہوا نکاح جبکہ اسپیکر کھلا ہوا ہو اور لڑکے کی آواز بھی گواہوں کو بھی سنائی دے رہی ہو درست ہوتا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے” فقہ اسلامی” مرتبہ ڈاکٹر عبد الواحد صاحب دامت برکاتہم ) البتہ سوال میں ذکر کردہ صورت میں درج ذیل وجہ  سے نہیں ہوا ۔

مولوی صاحب کا یہ جملہ کہ ” آپ کو قبول ہے؟” استفہام یعنی سوال ہے اور سوال ایجاب نہیں ہوتا۔ جیسا کہ کفایت المفتی (5/ 106 ) میں ایک سوال کے جواب میں "قبول کیا” کے بارے میں صراحت ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved