- فتوی نمبر: 1-292
- تاریخ: 18 جنوری 2008
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص مال لاتا ہے اور پھر بیچ دیتا ہے پھر نیا مال لاتا ہے یعنی تجارت کی نوعیت اس طرح کی ہے کہ مثلاً اس نے ایک لاکھ روپے کا سامان لایا اس کا کاروبار کیا اس پر نفع کمایا۔ لیکن اس کی دکان وغیرہ نہیں ہے بلکہ وہ یہ مال لا کر کسی ٹھیکہ وغیرہ پر بیچتا ہے پھر جب مال ختم ہوجاتا ہے تو کچھ دنوں کے وقفے کے بعد جاکر اور مال لاتا ہے اور اسے بیچتا ہے اور سال کے دوران کم و بیش مختلف قیمتوں کا مال لاتا ہے۔ سال کے بارویں مہینے میں وہ مثلاً صرف بیس ہزار کا مال لاکر بیچتا ہے۔ آیا اس پر زکوٰة آئے گی؟ اور کس طرح؟ یعنی کس حساب سے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
یہ مال تجارت ہے اورسال کے اول و آخر میں نصاب کے بقدر ہے تو آخر میں جتنی مالیت کا مال تجارت ہوگا ( مع جو نقدی اس کے پاس ہے) اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰة دے گا۔
(و شرط كمال النصاب في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد و في الانتهاء للوجوب ( فلا يضر نقصانه بينهما) و يضم قيمة العرض للتجار إلى الثمنين لأن الكل للتجارت وضعاً و جعلاً… (قيمة). ( شامی: 1/ 278) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved