- فتوی نمبر: 4-395
- تاریخ: 02 اپریل 2012
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
صورت مسئلہ یہ ہے کہ میں نے ایک پلاٹ دس سال پہلے پانچ لاکھ میں خریدا تھا۔ ( بیچنے کی نیت سے )، یہ پلاٹ پہلے زرعی رقبے میں تھا۔ ہم نے ایک سال کی فصل لی اور اس فصل کا عشر بھی ادا کر دیا۔ بعد میں اس زمین سے کوئی آمدنی نہیں ہوئی۔ اب یہ پلاٹ رہائشی علاقہ میں آچکا ہے۔ جس کی موجودہ قیمت تقریبا ایک کروڑ روپے ہے۔ ا ب اس پلاٹ پر زکوٰة لاگو ہوگی یا نہیں؟ اگر زکوٰة ادا کرنی ہو تو میں کس حساب سے ادا کروں۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جب سےآپ نے پلاٹ خریدا ہے اور پلاٹ فروخت کر نے کی نیت بھی بدستور باقی ہے تب سے ہر سال پورا ہونے پر جو پلاٹ کی قیمت تھی اس کے مطابق ڈھائی فیصد کے لحاظ سے زکوٰة ادا کریں سوائے اس سال کے جس میں آپ نے عشر ادا کیا اس سال زکوٰة واجب نہیں۔
لا زكاة فيما نواه للتجارة من نحو أرض عشرية أو خراجية لئلا يؤدي إلى تكرار الزكاة لأن العشر أو الخراج زكاة أيضاً لقوله عليه السلام لا ثني في الصدقة ( إلى أن قال ) إذا لم يزرعها تجب الزكاة التجارة فيهما لعدم وجوب العشر فلم يوجد المانع.(شامى )
إن الواجب الأصلي عندهما هو ربع عشر العين و إنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء و الصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا. (بدائع الصنائع: 2/ 22 )
وتعتبر القيمة يوم الوجوب عنده وقال يوم الأداء و في السوائم يوم الأداء بالإجماع و هو الأصح للقول الثاني الموافق لقولهما و عليه فاعتبار يوم الأداء يكون متفقا عليه عنده و عندهما…..
و ما اشتراه لها أي للتجارة كان لها لمقارنة النية لعقد التجارة ( إلى أن قال ) لا يبقى للتجارة ما
اشترى لها فنوى خدمته ثم نوى للخدمة لا يصير للتجارة وإن نوى لها مالم يبعه …. والفرق أن التجارة عمل فلا يتم بمجرد النية بخلاف الأول فإنه ترك العمل فيتم بها. (شامی : 3/ 229 ) ۔ فقط واللہ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved