• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

تلاوت کرنے کو سلام کرنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ جو شخص کسی تلاوت کرنے والے کو سلام کرے اس کا کیا حکم ہے۔ کیا تلاوت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ سلام کا جواب دے؟ اور اگر کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ شخص تلاوت کر رہا ہے جیسا کہ حفاظ کرام تو پھر سلام کرنے والے کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

تلاوت کرنے والے کو سلام نہیں کرنا چاہیے، اور تلاوت کرنے والے پر سلام کا جواب دینا واجب نہیں ۔ لا علمی میں ایسا ہو جائے تو حرج نہیں۔

في رد المحتار (2/ 453):

و صرح في الضياء بوجوب الرد في بعضها  و بعدمه. قال الشامي تحت قوله: (و صرح في الضياء … إلخ) أي نقلاً عن روضة الزندويسي و ذكر ح عبارته و حاصلها أنه يأثم بالسلام على المشغولين بالخطبة أو الصلاة أو قراءة القرآن أو مذاكرة العلم.

و فيه أيضاً (2/454):

و في شرح الشرعة: صرح الفقهاء بعدم وجوب الرد في بعض المواضع القاضي إذا سلم عليه الخصمان و الأستاذ الفقيه إذا سلم عليه تلميذه أو غيره أوان الدرس و سلام السائل أو المشتغل بقراءة القرآن و الدعا حاله شغله و الجالسين في المسجد لتسبيح أو قراءة أو ذكر حال التذكير……………………………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved