• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

توبہ کرنے سے قضاء نماز معاف نہ ہونے کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسلہ کے بارے میں کہ(1) زید کہتا ہے کہ اہل علم کہتے ہیں کہ سچی توبہ کرنے سے فوت شدہ نمازیں معاف ہو جاتی ہیں جن کی قضاء پڑھنا ضروری نہیں ۔کیا یہ بات ٹھیک ہے ؟قرآن حدیث سے دلائل دیجئے۔(2) کیا حج سے جہاں باقی گناہ معاف ہوجاتے ہیں نمازیں بھی معاف ہوجاتی ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔2۔زید کی یہ بات ٹھیک نہیں ہے  ،توبہ کرنےسے نمازوں کو بروقت ادا  نہ کرنے کا صرف گناہ  معاف ہوتا ہے نماز معاف نہیں ہوتی ،توبہ کے  بعد  بھی چھوٹی ہوئی نمازوں کی  قضاء واجب ہے،اسی طرح حج سے بھی نمازیں معاف نہیں ہوتی۔

امداد الفتاوی (1/399) میں ہے:

صرف توبہ سے قضاء نماز وں کا معاف نہ ہونا

سوال(۴۳۴): ایک مسئلہ میں اشکال بظاہر معلوم ہوتا ہے تو بہ سے تمام گناہ صغائر کبائر معاف ہوجاتے ہیں ۔ إلا حقوق العباد۔ مگر ہمارے فقہاء یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کی نماز یا روزہ قضا ہوگیا ہو تو وہ توبہ بھی کرے اور قضابھی پڑھے۔ تو بہ سے گناہ معاف ہوجاوے گا نماز معاف نہ ہوگی۔ اشکال یہ آن کرپڑتا ہے جب نماز حقوق اللہ سے ہے تو محض توبہ کی وجہ سے معاف کیوں نہیں ہوتی اور جبکہ توبہ سے گناہ معاف ہوگیا تو پھر قضا نہ پڑھنے پر گرفت کیسی اور گناہ کیسا؟یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ قضا نہ پڑھنے سے محروم رہے گا نماز کی فضیلت و تقرب الی اللہ سے مگر گناہ گار کیوں ہوگا۔ اگر یہ کہاجاوے کہ نماز کے اندر دو حیثیت ہیں ۔ ایک نماز کا ادا کرنا دوسرے اس کو عین وقت پر پڑھنا اور توبہ سے تاخیر نماز کا گنا ہ معاف ہوجاتا ہے نماز معاف نہیں ہوتی تب بھی اشکال وہی رہتا ہے کہ حقوق اللہ میں سے ہے نماز پھر تو بہ سے معاف کیوں نہیں ہوتی۔ اوراگر یہ مانا جاوے کہ نماز من وجہ حقوق العباد سے ہے کیوں کہ اس کا نفع اسی کو پہنچتا ہے۔ اس لیے معاف نہیں ہوتی تو حضور والا اس طرح سے ہرمعصیت میں دو حیثیت ہیں ۔ مثلاً کذب ایک حیثیت سے حقوق اللہ سے ہے اور چونکہ اس کے گناہ سے اس کی ذات کو نقصان پہنچتاہے اس لیے حقوق العباد ہوا؛ اس لیے وہ بھی توبہ سے معاف نہ ہونا چاہیے۔ مگر کذب معاف ہوجاتا ہے؟

الجواب : حقوق اللہ کے معاف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ذنوب معاف ہوتے ہیں نہ کہ طاعات سو نماز طاعات میں سے ہے۔ اور اس کا بدل ممکن اور مشروع ہے۔ لہٰذا قضا ء واجب ہوئی پھر قضاء کا بدل فدیہ ہے(1)۔ اگر قضا پر قدرت نہ ہوئی فدیہ واجب ہوگا یا اس کی وصیت۔ اگر اس پر بھی قدرت نہ ہوئی یا وسعت نہ ہوئی نہ اس کا کوئی بدل ہے اب یہ کوتاہی ذنب محض رہ گئی یہ توبہ سے معاف ہو نیکی امید گا ہ ہے۔ اب سب اشکالات رفع ہوگئے۔خلاصہ مختصر یہ ہوا کہ جس عبادت کا شرع میں بدل ہے بدل پر قدرت ہونے تک وہ توبہ سے معاف نہیں ہوتی۔ بعد عجزوہ بھی معاف ہوجاتی ہے۔

شرح فقہ الاکبر (264)میں ہے:

 وأیضا قد نصّوا علی أنّ أرکان التوبة ثلاثة، الندامة علی الماضي۔ والإقلاع في الحال والعزم علی عدم العودفي الاستقبال فا لاولیٰ أن یقال معنی الندم توبة أنه عمدۃ أرکانها کقوله عليه السلام: الحج عرفة، ثم هذاإن کانت التوبة فیما بینه وبین اﷲ تعالیٰ کشرب الخمر وإن کانت عمّا فرط فيه من حقوق اﷲ کصلوات وصیام وزکوات فتوبته أن یندم علی تفریطه أوّلا ثم یعزم علی أن لایفوت أبداً ولو بتأ خیر صلاۃ عن وقتها ثم یقضي مافاته جمیعا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved