• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ٹریول ایجنسی سے متعلق چند سوالات

استفتاء

گذارش ہے کہ بندہ درسِ نظامی کا فاضل ہے اور اب کچھ عرصہ سے ٹریول ایجنسی کے کاروبار سے منسلک ہے، اس سلسلہ میں پیش آمدہ مسائل کی وجہ سے کافی پریشان ہے، کیونکہ مارکیٹ میں رائج اکثر صورتیں شرعی اصولوں پر پورا اترتے نظرنہیں آتیں، جبکہ ان کا کوئی جائز متبادل بھی سمجھ میں نہیں آرہا۔ اس لئے آپ حضرات کی خدمت میں چند سوالات بھیج رہا ہوں۔ صورتِ حال کو واضح کرنے کی غرض سے ممکن ہے سوالنامہ ذرا طویل ہوجائے۔ اس کیلئے پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔

پہلا مسئلہ ایئرلائنز کی ٹکٹوں کی خریدوفروخت کا ہے۔ کچھ  ایئرلائنز وہ ہیں جوٹریول ایجنٹس کو5 یا 7 فیصدتک کمیشن دیتی ہیں ۔    جبکہ کچھ ایئرلائنز ٹریول ایجنٹ کو کمیشن نہیں دیتی۔  ایک صورت یہ ہے کہ گاہک ہمارے پاس آکر اپنی ڈیمانڈ بتلاتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں تاریخ کو سفرکرنا ہے ،مجھے چیک کرکے بتلائیں کہ کتنے میں ٹکٹ ملے گا۔ ہم سسٹم میں چیک کرتے ہیں اور سسٹم سے مثلاً معلوم ہوا کہ اس وقت ٹکٹ کی قیمت 50،000 روپے ہے، اس میں سے پانچ یا سات فیصد کمیشن ہمیں ایئرلائن سے ملتا ہے۔ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم گاہک کواتنے میں ہی ٹکٹ فروخت کردیں۔ دوسری صورت یہ ہے جو اکثر ہوتی ہے کہ ٹریول ایجنٹ گاہک کو 50،000 میں مزید اپنا کمیشن  ڈال کر مثلاً 52،000 روپے بتلادیتا ہے۔ گاہک کو یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ ٹریول ایجنٹ مجھ سے کمیشن لے رہا ہے، بلکہ بعض اوقات اسکویہ کہہ بھی دیا جاتا ہے کہ ہمارا کمیشن ڈال کر ٹکٹ اتنے کا بنے گا۔ لیکن عموماً اس کو ٹکٹ کی اصل قیمت ِخرید کا علم نہیں ہوتا۔ اور تجربہ یہ ہے کہ اگر بتلا دیا جائے تو وہ 500 روپے بھی بطور کمیشن دینے پر مشکل سے آمادہ ہوتا ہے۔ لیکن بغیر بتلائے یا اجمالی طور پر بتلا کر کہ مثلاً ہم آپ سے اس ٹکٹ پر 3 فیصد کمیشن لے رہے ہیں کہہ کر زیادہ کمیشن بھی لے لیا جاتا ہے۔  اب سوال یہ ہے کہ :

1۔ کیا بغیر بتلائے گاہک سے کمیشن وصول کرنا جائز ہے؟

2۔کیا اجمالی طورپر یہ کہہ دینا یا لکھ کرلگا دینا کافی ہوگا کہ ہر ٹکٹ پر ہم مثلاً 3فیصد کمیشن لیں گے؟

3۔اسی ضمن میں ایک مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ گاہک کو جب ایجنٹ نے بتلادیا کہ ٹکٹ مثلاً 50،000 کا ہے، اسی وقت وہ اس گاہک کے نام کی بکنگ بھی ڈال دیتا ہے، جس کے بعد گاہک مارکیٹ میں جاتا ہے لیکن دوسرے ایجنٹس اس کو زیادہ قیمت بتلاتے ہیں تو نتیجتاً وہ واپس پہلے ایجنٹ کے پاس آتا ہے کہ ٹکٹ کروادیں۔ وہ ایجنٹ کیونکہ جانتا ہے کہ مارکیٹ میں اس وقت ٹکٹ 60،000 سے کم میں نہیں مل رہا لہٰذا وہ کہتا ہے کہ پہلے والی آفر آپ نے قبول نہیں کی تھی لہٰذا اب یہ ٹکٹ آپ کو 55،000 میں دوں گا۔ گاہک کیلئے کیونکہ یہ بھی مارکیٹ سے سستا ہوتا ہے لہٰذا وہ اس پر راضی ہوجاتا ہے۔

4۔ بعض اوقات گاہک سے 50،000 روپے طے ہوجاتے ہیں ، لیکن اسے ٹکٹ اگلے دن لینے کا کہہ دیا جاتا ہے ، اور 50،000 والی بکنگ ڈال دی جاتی ہے لیکن اس کا ٹکٹ ایشو نہیں کروایا جاتا۔ اس دوران ایجنٹ تلاش کرتا رہتا ہے ، اور اسے وہی ٹکٹ 45،000 میں مل جاتا ہے۔ لیکن وہ گاہک کو 50،000 میں ہی دیتا ہے جو پہلے طے شدہ ہے۔ کیا یہ صورت جائز ہے؟ کیا ایجنٹ اپنی محنت کے عوض جو اس نے سستا ٹکٹ تلاش کرنے کیلئے کی ہے  مکمل 5000 رکھ سکتا ہے؟ یا اگر وہ گاہک کو اجمالاً یہ کہہ دے کہ میں نے مزید کوشش کرکے ٹکٹ سستا کروادیا ہے لہٰذا اب میرا کمیشن کاٹ کر آپ کو 47000 کا ٹکٹ مل جائے گا تو یہ صورت جائز ہوگی؟

5۔ ایک صورت کبھی یہ بھی ہوتی ہے کہ گاہک کو 50،000 والے ٹکٹ کا پرنٹ بھی دیدیا جاتا ہے ۔ لیکن اس کے جانے کے بعد ایجنٹ دیکھتا ہے کہ سسٹم میں اس سے سستا ٹکٹ دستیاب ہے، تو ایجنٹ وہ ٹکٹ کینسل کرکے اسی پر ایک نیا ٹکٹ بنا دیتا ہے۔ گاہک کو اس سارے قصے کا علم ہی نہیں ہوتا۔ اور وہ پرنٹ ہی اس کیلئے کارآمد ہوتا ہے کیونکہ ایئرپورٹ پر پی این آر چیک کیا جاتا ہے اور اس میں درست ٹکٹ موجود ہوتا ہے۔کیا اس صورت میں کمایا جانے والا نفع حلال ہوگا؟

6۔ بعض اوقات گاہک کئی سروسز اکٹھی خریدتا ہے مثلاً ویزہ لگوانے سے لیکر ٹکٹ خریدنے تک ۔ اگر اس وقت ساری سروسز کی اکٹھی قیمت بتلادی جائے اور ہر ایک کی الگ تعیین نہ کی جائے تو کیا یہ جائز ہوگا۔ جیسا کہ عموماً عمرہ وغیرہ کے ویزہ میں کیا جاتا ہے کہ پورا پیکیج دیا جاتا ہے کہ اس میں اکانومی کلاس کا ٹکٹ ،ہوٹل،ٹرانسپورٹ وغیرہ سب کی ایک ہی قیمت طے کرلی جاتی ہے۔

7۔ بعض اوقات گاہک سے اس طرح معاملہ طے کیا جاتا ہے کہ ہمیں پیچھے سے جتنے میں بھی مل رہا ہو ہم آپ کو یہ آفر دیتے ہیں کہ اگر آپ کل اتنے بجے سے پہلے خریدیں تو ہم آپ کو یہ ٹکٹ 45،000 میں دیں گے۔  اب اس ایجنٹ مثلاً 40،000 میں بکنگ ڈال لی ہوتی ہے، جبکہ مارکیٹ میں گاہک کو وہ ٹکٹ 50،000 سے کم میں نہیں مل رہا ہوتا لہٰذا وہ اس پر راضی ہوتا ہے کہ آپ کو جتنے میں بھی ملی ہو میں 45،000 میں خریدنے پر راضی ہوں، کیا یہ صورت درست ہوگی؟

8۔ ایک صورت کوٹہ خریدنے کی ہے کہ ہم مثلاً چھ ماہ پہلے کسی ایئرلائن کے 100 اوپن ٹکٹ خریدلیتے ہیں۔ اب وہ ٹکٹ فروخت ہوں یا نہ ہوں اس سے ایئرلائن کو کوئی غرض نہیں رہتی ،کیونکہ انہوں نے چھ ماہ پہلے ان کی قیمت وصول کرلی۔ فروخت نہ ہونے کی صورت میں سارا نقصان ہمیں ہوتا ہے۔ اور چھ ماہ بعد جب مارکیٹ میں ٹکٹ نہیں مل رہا ہوتا تو وہی ٹکٹ جو چھ ماہ قبل ہم نے 40،000 میں خریدا تھا اب ہم اس کو 60،000 میں بھی فروخت کریں تو لوگ خریدلیتے ہیں، کیونکہ مارکیٹ میں حالیہ ٹکٹ ایئرلائن بھی اس سے زیادہ مہنگا دے رہی ہوتی ہے یا ٹکٹ مل ہی نہیں رہا ہوتا۔ کیا یہ صورت شرعاً جائز ہے؟

9۔ بعض اوقات ٹکٹ میں تبدیلی یا کینسل کروانے کیلئے گاہک ہم سے رابطہ کرتا ہے۔ مثلاً ائیرلائن کی طرف سے کٹوتی 2000 روپے ہے تو ہم اپنا کمیشن ملا کر اس کو کہتے ہیں کہ اس کام پر 3000 روپیہ لگے گا ۔ کیا یہ جائز ہے یا کمیشن اور ایئرلائن کی کٹوتی الگ الگ بتانا ضروری ہے؟

10۔ اسی طرح بعض لوگوں کئی کام کروانے کیلئے ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔ مثلاً ویزہ پر پروٹیکٹر لگوانا یا اس قسم کے اور کام۔ ان میں کچھ فیس گورنمنٹ کی ہوتی ہے اور کچھ کمیشن وہ ایجنٹ لیتا ہے جس کے ذریعہ ہم کام کرواتے ہیں۔ اور کچھ کمیشن ہم اپنا شامل کرتے ہیں ۔ کیا اس سب کو جمع کرکے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کل اتنی رقم دیدیں ہم آپ کا کام کروا دیں گے؟

11۔ اسی طرح ہم سعودیہ اور مختلف ممالک کے ویزوں کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ ورک ویزہ  بعض اوقات وہاں کسی کفیل سے خرید کر یہاں فروخت کرتے ہیں۔ اور اس کے درمیان اپنا نفع وصول کرتے ہیں۔ کبھی یہاں پاکستان میں کام کرنے والی کسی ایجنسی سے ویزہ خرید کر اس میں اپنا نفع رکھ کر آگے فروخت کرتے ہیں۔ اس میں شرعاً کوئی قباحت تو نہیں؟

12۔ آج کل اکثر معاملات میں اس طرح سے کام چلتا ہے کہ مالک ایجنٹ سے رابطہ کرتا ہے کہ میں نے یہ چیز اتنے میں فروخت کرنی ہے ، اس سے زائد جتنے میں فروخت کرلو وہ تمہارا، کیا یہ جائز ہے؟ اگر یہ جائز ہے تو اگر سروسز میں یہی طریقہ اختیار کیا جائے کہ سروس فراہم کرنے والا ایجنٹ سے کہتا ہے کہ میرے چارجز 10،000 ہیں اس سے زیادہ جتنے آپ وصول کرلو وہ آپ کے۔ تو کیا یہ جائز ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ٹریول ایجنسی/ ایجنٹ کی تین حیثیتیں ہیں:

1۔ ائیر لائن کمپنی کا وکیل اور ایجنٹ ہو۔

2۔ گاہک کا نمائندہ ہو۔

3۔ خود کمپنی سے ٹکٹ خرید کر گاہک کو براہِ راست فروخت کرے۔

پہلی صورت میں کمپنی سے کمیشن لے سکتا ہے، گاہک سے نہیں۔

دوسری صورت میں گاہک سے لے سکتا ہے، کمپنی سے نہیں۔

تیسری صورت میں کمیشن کسی طرف سے بھی نہیں لے سکتا، البتہ ٹکٹ پر اپنا نفع رکھ کر فروخت کر سکتا ہے، نفع کی مقدار بتانا ضروری نہیں۔

جن صورتوں میں کمیشن لے سکتا ہے ان میں کمیشن کی مقدار بتانا ضروری نہیں، اجمالی علم کافی ہے چاہے صراحت ہو یا معروف ہو۔

در مختار میں ہے:

و أما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته علی البائع. قال العلامة الشامي: و ليس له أخذ شيئ من المشتري لأنه هو العاقد حقيقة فظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا لأنه لا وجه له.

اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے نمبر وار جوابات یہ ہیں:

2-1۔ کمیشن کے لیے معروف یا مشروط ہونا ضروری ہے، مشروط ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی خاص سودے میں صراحت کر دے کہ میں کمیشن لوں گا۔ اور معروف کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کمیشن پر کام کرنا معروف ہو۔ اس صورت میں الگ سے صراحت کی ضرورت نہ ہو گی۔ جو آدمی ٹریول ایجنسی کا کام کرتا ہے وہ معروف ہے، اس لیے اسے الگ سے بتانے یا صراحت کرنے کی ضرورت نہیں، اجمالی علم کافی ہے، لکھ کر لگانے کی بھی ضرورت نہیں۔

3۔ جائز ہے، البتہ گاہک یہ وعدہ لے سکتا ہے کہ وہ مارکیٹ کو دیکھے گا۔ اگر اس کو کم ریٹ پر نہ ملا تو وہ اسی قیمت پر آ کر لے لے گا۔

4۔ اگر گاہک کے ساتھ کمیشن کی مقدار بابت کوئی تصریح نہیں کی تو 50000 میں بھی دے سکتے ہیں۔

5۔ اس صورت کی تفصیل مطلوب ہے۔

6۔ جائز ہے۔

7۔ درست ہے۔

8۔ جائز ہے۔

9۔ جائز ہے، الگ الگ بتانا ضروری نہیں۔

10۔ کہہ سکتے ہیں، بشرطیکہ کوئی نا جائز یا غیر قانونی کام نہ ہو۔

11۔ ویزہ لگوانے کے مروجہ کام میں کافی صورتیں ہیں، ان کی مکمل تفصیل فراہم کریں، تب تسلی بخش جواب دیا جا سکتا ہے۔

12۔ جائز نہیں۔

و في التلويح: أما قول ابن عباس رضي الله عنه و  ابن سيرين و أكثر العلماء لا يجيزون هذا لأنها و إن كانت أجرة سمسرة لكنها مجهولة و شرط جوازها عند الجمهور أن تكون الأجرة معلومة. و ممن كرهه الثوري و الكوفيون و قال الشافعي و مالك رحمهما الله لا يجوز فإن باع فله أجر مثله. (إعلاء السنن: 16/ 207)

ہم عدم جواز کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اور حضرات اس کو جائز سمجھتے ہیں اور یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول بھی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved