• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ٹرسٹ کے لیے زکوٰۃ وصول کرنے اور صرف کرنے کا طریقہ کار

استفتاء

المکی المدنی ہسپتال تاج پورہ اسکیم لاہور میں واقع ہے جس میں گردوں کے مریضوں کو مفت ڈائیلسز کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اس کے علاوہ دیگر سہولیات جیسے الٹرا ساؤنڈ، ایکو کارڈیو گرافی شوگر اور دل کے مریضوں کے لیے OPD وغیرہ کا شعبہ قائم کیا گیا ہے۔ ٹرسٹ کی طرف سے مذکورہ بالا تمام امراض کا علاج لوگوں سے وصول کی گئی زکوۃ و صدقات اور عطیات و خیرات سے کیا جاتا ہے، لوگوں سے یہ رقوم وصول کرتے وقت اس بات کی تحقیق نہیں کی جاتی کہ یہ رقم زکوۃ و صدقات یا عطیات میں سے کس مد سے ہے، ٹرسٹ کا ایک ہی بینک اکاؤنٹ ہے جس میں مذکورہ بالا تمام مدات کی رقم اکٹھی رکھی جاتی ہے جو مریض بھی علاج کے لیے آتا ہے اس سے باقاعدہ استحقاق معلوم کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے کہ یہ سید ہے غیر مسلم ہے یا صاحب نصاب ہے وغیرہ صرف اس کے مستحق ہونے کے دعوے پر علاج کر دیا جاتا ہے۔ان تمام مریضوں کا علاج زکوۃ و صدقات اور عطیات کے مشترک فنڈ سے ہی کیا جاتا ہے ،مریضوں کے علاج و ادویات کے علاوہ ہسپتال کے دیگر اخراجات مثلا ڈاکٹر کی فیس عملے کی تنخواہ یوٹیلٹی بلز مشینوں کی خریداری مہمانوں کا اکرام مارکیٹنگ وغیرہ اسی مشترکہ فنڈ یعنی زکوۃ و صدقات اور عطیات سے  کیے جاتے ہیں زکوۃ و صدقات کی رقم کو مریضوں پر خرچ کرنے کے لیے پہلے تملیک کا انتظام تھا جس میں ٹرسٹ ہی کے ایک رکن جو بظاہر مستحق تھے انکے ہاتھ میں ساری رقم دے کر ان کو مالک بنا کر پھر ان سے واپس لے کر مذکورہ بالا تمام مدات میں خرچ کر دی جاتی تھی بعد میں ایک مفتی صاحب سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کو تملیک کروانے کی ضرورت نہیں ہے آپ زکوۃ دینے والوں کے وکیل ہیں آپ تمام مدات میں براہ راست خرچ کر سکتے ہیں تو اب یہی نظام چل رہا ہے (1)مذکورہ بالا دونوں نظاموں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

(2)کیا ان کے علاوہ کوئی ایسا نظام ہے جس میں معطیین کی زکوۃ و صدقات بھی اپنے مصرف پر خرچ ہو جائیں اور مریضوں کا علاج اور ہسپتال کے دیگر ضروریات بھی پوری ہو جائیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) تملیک والا نظام تو پھر بھی کسی حد تک ٹھیک تھا بشرطیکہ جس سے تملیک کروائی جاتی تھی وہ غالب گمان کے مطابق مستحق زکوۃ تھا اور زکوۃ وغیرہ لینے کے بعد وہ اپنی خوشی سے ہسپتال کو عطیہ کردیتا تھا لیکن دوسرا نظام (جس میں تملیک کی ضرورت ہی نہیں) بالکل غلط تھا اور جس مفتی صاحب نے یہ دلیل دی کہ “آپ زکوۃ دینے والوں کے وکیل ہیں آپ تمام مدات میں براہ راست خرچ کر سکتے ہیں” یہ دلیل بھی  درست نہیں کیونکہ وکیل کو صرف وہی اختیار ہوتے ہیں جو وکیل بنانے والے(اصل زکوۃ دینے والوں کو) ہوتے ہیں اور اصل زکوۃ دینے والوں کو صرف مستحقین کو زکوۃ دینے کے اختیارات تو ہوتے ہیں تمام مدات میں زکوۃ خرچ کرنے کے اختیارات نہیں ہوتے ہاں اگر مفتی صاحب یہ کہتے کہ” آپ زکوۃ لینے والوں کے وکیل ہیں” تو پھر بھی کچھ نہ کچھ بات بن سکتی تھی۔ عین ممکن ہے  مفتی صاحب کی بات سننے میں یا سمجھنے میں یا آگے نقل کرنے میں غلطی ہوئی ہو۔

(2) مذکورہ دونوں نظاموں کے علاوہ  یہ نظام ہو سکتا ہے کہ  زکوۃ و صدقات واجبہ کے لیے الگ اکاؤنٹ ہو اور عطیات کے لیے الگ اکاؤنٹ ہو  اور پھر  ان دونوں  اکاؤنٹس کی رقموں کو اپنے اپنے   مصارف میں خرچ کیا جائے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔

اگر کسی وجہ سے صدقات ِ واجبہ اور عطیات کے لیے الگ الگ اکاؤنٹ نہ  بن سکیں تو اتنا ضرور کرلیا جائے  کہ صدقات واجبہ اور عطیات کی رقموں کا الگ الگ حساب ضرور رکھا جائے ۔ اور پھر   جو رقم  عطیات کی مد میں موصول ہوئی ہو   اسے کسی بھی مد میں براہ راست خرچ کرلیا جائےاور  جتنی رقم زکوۃ و صدقات واجبہ کی  مد میں موصول   ہوئی ہو  اسے  صرف مستحق مریضوں پر خرچ کیا جا ئےجس کی صورت یہ  ہے کہ پہلے مریض کا مستحق   ِ زکوۃ ہونا معلوم کیا جائے۔(استحقاق معلوم کرنے کے لیے”نافع “سے فارم لیا جا سکتا ہے) پھر مریض پر جتنا خرچہ آئے اتنی رقم اس کے ہاتھ میں دے دی جائے  اور ہاتھ میں دینے کے بعد یہ رقم علاج کے خرچے کی مد میں اس سے واپس لے لی جائے۔ نیز  یہ  بھی ہوسکتا ہے کہ زکوٰۃ کی رقم مستحق مریض کے ہاتھ میں نہ دی جائے بلکہ مستحق مریض سے مندرجہ ذیل وکالت نامہ لے لیا جائے:

“من کہ فلاں بن فلاں مسلمان ہوں اور سید یا ہاشمی نہیں ہوں اور مستحق زکوٰۃ ہوں لہٰذا میں ہسپتال  کی انتظامیہ کو یا جس کو انتظامیہ مناسب  سمجھے اسے اس بات کا وکیل بناتا ہوں کہ وہ ہسپتال  کے زکوٰۃ وصدقات واجبہ فنڈ سے میرے علاج معالجے کے خرچے کے بقدر زکوٰۃ وصول کرے اور پھر میرے علاج معالجے کے اخراجات پر صرف /خرچ کرے”

الدر المختار مع ردالمحتار (2/449) میں ہے:

ويشترط ‌أن ‌يكون ‌الصرف (‌تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد)

(قوله: نحو مسجد) ‌كبناء ‌القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه.

البحر الرائق (2/424) میں ہے:

والحيلة في الجواز ‌في ‌هذه ‌الأربعة أن يتصدق بمقدار زكاته على فقير ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون لصاحب المال ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب.

فتاوی التاتارخانیہ (3/228) میں ہے :

وفيها : سئل عمر الحافظ عن رجل دفع إلى الآخر مالا فقال له ” هذا زكاة مالى فادفعها إلى فلان فدفعها الوكيل إلى آخر هل يضمن؟ قال: نعم، وله التعيين.

فتاوی شامی  (2/ 269) میں ہے :

«قوله إذا وكله الفقراء) لأنه ‌كلما ‌قبض ‌شيئا ملكوه وصار خالطا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع

فتاوی عالمگیری (1/414) میں ہے :

(فصل ما يوضع في ‌بيت ‌المال ‌أربعة أنواع) . (الأول) زكاة السوائم والعشور، وما أخذه العاشر من تجار المسلمين الذين يمرون عليه، ومحله ما ذكرنا من المصارف.

(والثاني) خمس الغنائم والمعادن والركاز ويصرف اليوم إلى ثلاثة أصناف اليتامى والمساكين وابن السبيل.

(والثالث) الخراج والجزية، وما صولح عليه بنو نجران من الحلل وبنو تغلب من الصدقة المضاعفة، وما أخذه العاشر من المستأمنين وتجار أهل الذمة كذا في السراج الوهاج. وتصرف تلك إلى عطايا المقاتلة وسد الثغور وبناء الحصون ثمة، وإلى مراصد الطريقفي دار الإسلام حتى يقع الأمن عن قطع اللصوص الطرق، وإلى إصلاح القناطر والجسور، كذا في محيط السرخسي…….

(والرابع) اللقطات هكذا في محيط السرخسي  وما أخذ من تركة الميت الذي مات، ولم يترك وارثا أو ترك زوجا وزوجة وهذا النوع يصرف إلى نفقة المرضى، وأدويتهم، وهم فقراء، وإلى كفن الموتى الذين لا مال لهم …………….. فعلى الإمام أن يجعل بيت المال أربعة لكل نوع بيتا؛ لأن لكل نوع حكما يختص به لا يشاركه مال آخر فيه

الدر المختار مع ردالمحتار (3/283) میں ہے:

باب المصرف أي ‌مصرف ‌الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.

بدائع الصنائع (2/175) میں ہے:

وأما ‌صدقة ‌التطوع فيجوز صرفها إلى الغني؛ لأنها تجري مجرى الهبة.

فتاوی محمودیہ (9/495) میں ہے :

وکیل امین ہوتا ہے ، ہدایت ِ موکل کے خلاف تصرف  کرنے  کا اس کو حق نہیں ،  خلاف کرنے سے وکیل کے ذمہ ضمان لازم آئے گا اور زکوۃ ادا نہیں ہوگی ۔

کفایت المفتی (4/502)میں ہے :

ایک مدرسہ عربیہ میں چند مدات میں روپیہ وصول ہوتا ہے مثلاًزکوۃ‘ تعمیر مسجد‘ خیرات اور مہتمم مدرسہ جملہ مدات کا روپیہ ایک جگہ شامل کرکے رکھتا ہے اور حساب میں آمد وجمع علیحدہ علیحدہ کرتا ہے بوقت خرچ جس کھاتے کی رقم ہوتی ہے اس میں خرچ کر ڈالتا ہے اس طریقے میں زکوٰۃ ادا ہوئی یا نہیں اورجس نے تعمیر مسجد میں رقم دی تھی اس کی رقم تعمیر مسجد میں لگی کہ نہیں اگر مذکورہ بالا مہتمم نے زکوٰۃ کی رقم کسی دوسرے مصرف میں خرچ کردی اور زکوٰۃ دہندہ کو خبر نہ ہوئی تو زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں اور اگر خبر ہوگئی تو زکوٰۃ دہندہ کیاکرے ؟

(جواب) (از  حبیب المرسلین صاحب نائب مفتی )  زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ اداہوجائے گی اور مہتمم  ان کوراضی کرکے یہ رقم ان سے لیکر یتیم خانے کے مصارف پر صرف کردے گا تو مہتمم کایہ فعل بھی جائز ہوگا اور اگر ان سے ناراضگی کی صورت میں لیکر یتیم خانے کے مصارف پر صرف کرے گا تو گناہ گار ہوگا مگر بہر صورت   زکوٰۃ دہندہ کی زکوٰۃ اد ا ہوجائے گی ۔ (۲) اگر عرف مخلوط کردینے مہتمم کا مختلف مدات کی رقوم کو نہ ہوگا تو یہ فعل مہتمم کا ناجائز و موجب ضمان ہوگا اور اگر عرف ہوگا تو یہ فعل مہتمم کا جائز ہوگا اور موجب ضمان نہ ہوگا بشرطیکہ ان مختلف مدات کی  رقوم کے مالکین کو بھی علم اس عرف پر ہوگا اور اس جواز کی صورت میں مہتمم بمقدار رقم ہر مالک مؤکل کے رقوم مخلوطہ میں سے لیکر اس کے مصرف معین پر صرف کردے گا تو زکوٰۃ دہندہ کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور مسجد تعمیر کنندہ کی طرف سے مسجد تعمیر ہوجائے گی اور اگر مہتمم زکوٰۃ کی رقم کو جان کر غیر مصرف میں خرچ کردے گا اور زکوٰۃ دہندہ کو خبر نہ ہوگی تو اس کامواخذہ اخروی‘ مہتمم  پر ہوگا  لیکن زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور اگر زکوٰۃ دہندہ کو خبر ہوجائے گی تو اس کویہ حق نہ ہوگا کہ مہتمم سے اپنی رقم تلف شدہ کی ضمان لیکر زکوٰۃ ادا کرے   ویتصل بهذا ا العالم اذا سال للفقراء شیئاً و خلط یضمن قلت و مقتضاه انه لووجد العرف فلا ضمان لوجود الا ذن حینئذٍ دلالة والظاهرانه لا بدمن علم المالک بهذا  العرف لیکون اذنامنه دلالة (ر دالمحتار جلد ثانی ص ۱۲) اجابہ و کتبہ حبیب المرسلین عفی عنہ نائب مفتی مدرسہ امینیہ‘ دہلی

(جواب از حضرت  مفتی اعظم ؒ )   اس میں پہلی بات تو قابل غور ہے کہ مختلف مدات کی رقوم کو علیحدہ رکھنے اور اپنے مصرف میں صرف کرنے کا حکم روپیہ اور پیسوں اور گنی اور گلٹ کے سکوں کے ساتھ متعلق ہے جورقوم کہ کاغذی نوٹوں کی صورت میں دی جائیں  ان کے ساتھ یہ حکم متعلق نہیں کیونکہ نوٹ خود مال نہیں ہیں محض وثائق[1] ہیں اگر   مختلف مدات کے لئے دیئے ہوئے نوٹ ملادیئے جائیں اور ہر ایک مد کی رقم کے موافق  اس مد میں انکو صرف کردیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہر مد میں رقم صرف  کردی جانے پر معطی کی زکوٰۃ اد اہوجائے گی ۔

اب رہے دھات کے سکے تو ان کا حکم یہ ہے کہ مختلف مدات  بلکہ ایک مد میں دی ہوئی مختلف اشخاص کی رقم بھی علیحدہ رکھنی چاہئیے اس اصول کے ماتحت مہتمم پر یہی لازم نہیں کہ وہ مد زکوٰۃ کی تمام رقم علیحدہ رکھے بلکہ یہ بھی لازم ہے کہ زکوٰۃ کی رقم بھی ہر ایک شخص کی علیحدہ رکھے خواہ  رقم چارآنے کی ہو یا روپے کی یا دس روپے کی اور اگر زکوٰۃ  دینے والے تین سو چار سو آدمی ہوں جن میں آنہ دوآنہ سے مثلا ً   سینکڑوںروپے تک کی مختلف رقوم ہوں تو اصول بالا کی بنا پر تین چار سو تھیلیاں یا پڑیاں علیحدہ رکھنی پڑیں گی  (کیونکہ  الخلط استہلاک جس طرح خلط قسم بقسم اخر پر صادق آتی ہے اسی طرح خط مال واحد بمال اخر پر بھی صادق ہے )  اور اس کی دشواری اور عدم استطاعت مخفی نہیں اس لئے فقہا نے یہ حکم دے دیا ہے کہ جب کہ رقوم جمع شدہ مختلطہ اپنی اپنی مد میں صرف کردی جائیں اور اختلاط کا عرف ہونے کی وجہ سے مالکوں کی جانب سے دلالتہ ً  اذن بالخلط ہوجائے تو زکوٰۃ بھی ادا ہوجائے گی اور مہتمم پربھی کوئی گناہ یا ضمان نہ ہوگا ۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند (6/180) میں ہے :

اگر کوئی شفا خانہ خاص مسلمان مساکین کے لئے کھولا جاوے تو ایسے شفاخانہ میں زکوٰۃ کا روپیہ حیلہ کر کے دینا جائز ہے یا نہیں؟

(جواب )   ۔۔۔۔۔ چونکہ زکوٰۃ میں تملیک فقیر مسلم شرط ہے اس لئے تجہیز و تکفین میت یا تعمیر مسجد ومدرسہ وغیرہ میں اس کا صرف کرنا درست نہیں ہے اور اس کے جواز کا حیلہ فقہاء نے یہ لکھا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صورت اس ( حیلہ)  کی یہ ہے کہ اول وہ رقم زکوٰۃ کسی ایسے محتاج مسلمان کی ملک کر دی جائے جو کہ مصرف زکوٰۃ ہو ، پھر اس سے کہا جاوے کہ وہ اپنی طرف سے شفا خانہ مذکورہ میں دے دیوے کیونکہ اب وہ زکوٰۃ کا روپیہ نہیں رہا بلکہ زکوٰۃ مالک کی ا س محتاج شخص کو دینے سے ادا ہوگئی اور وہ مالک اس کا ہوگیا ، اب اس کو اختیار ہے کہ وہ جس موقعہ پر چاہے اس کو صرف کرے  فقط۔

فقہی مضامین از ڈاکٹر مفتی عبدالواحدؒ  (1/276) میں ہے :

” مہتمم ہر مستحق طالب علم کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر دے اور یہ وظیفہ اس کو پکڑا بھی دیا جائے پھر اس میں سے کچھ رقم چھوڑ کر( جو کہ طالب علم کے ناشتے اور بعض دیگر ضروریات کے لیے ہو) باقی رقم قیام  ، طعام اور تعلیم کے اخراجات کی مد میں اس سے لے لی جائے مثلا چار ہزار روپے اس کو دیئے اور اس میں سے تین ہزار روپے اس کے مذکورہ اخراجات کے لیے لے لیے  ۔۔۔۔۔۔۔۔اس طریقہ کار میں ایک  آسانی یہ اختیار کی جاسکتی ہے   کہ شروع سال میں طلبہ سے ایک فارم پر دستخط کرالیے جائیں کہ وہ مدرسہ کے مقرر کیے ہوئے ایک ناظم کو اپنا وکیل مقرر کرتے ہیں جو مہتمم سے ان کا وظیفہ وصول کرےاور اس میں سے مدرسہ کے مطلوبہ اخراجات  ادا کرے  اور  بقیہ رقم  ( جو ان کے ناشتے وغیرہ کی ہو ) ان کو ادا کرے۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

[1] یہ حکم اس وقت تھاجب نوٹوں کے پیچھے بینکوں میں سونا ہوتا تھا لیکن اب نوٹ خود ثمن عرفی بن گئے ہیں اس کے پیچھے سونا نہیں ہوتا۔

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved