• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ٹی ٹی

استفتاء

ہم لوگوں کا کاروبار چین سے سامان منگوانے کا ہے اس سلسلے میں ہمیں ان کو  ڈالروں میں پیسے بھیجنے ہوتے ہیں ہم لوگ پیسے Money Exchange کے ذریعے بھجواتے ہیں ۔ اس کا طریقہ کار ایسا  ہوتا ہے کہ ہم لوگ Money Exchange  والے سے موجود ڈالر ( ٹی ٹی ) کا ریٹ طے کر لیتے ہیں اور وہ رقم پہلے دوبئی بھیجتے ہیں وہاں سے امریکہ سے ہوتے ہوئے دو تین روز میں یہ رقم چین  میں ہماری پارٹی کے بنک  اکاؤنٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ اور ہم لوگ Money Exchange والے پاکستانی رقم کی صورت میں تین یا چار دن میں پیسے جمع کر دیتے ہیں پیسے بھیجنے کے اس عمل کو مارکیٹ میں ٹی ٹی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ جو مارکیٹ میں ڈالر اور ٹی ٹی کے ریٹ  ہوتے ہیں وہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔

1۔ حاضر ڈالر کاریٹ : اس میں  ڈالر کا ریٹ طے کر کے ڈالر وصول کر لیے جاتے ہیں اور اس کے متبادل پاکستان رقم کبھی تو نقد یا پھر دو یا چار دن میں ادا کر دی جاتی ہے۔

2۔ ٹی ٹی کا ریٹ : اس میں ٹی ٹی کا ریٹ طے کر کے جتنے ڈالر خریدنے ہوتے ہیں وہ ہم Money Exchange والے سے طے کر لیتے ہیں اور ہم اس کے متبادل پاکستانی رقم کبھی تو نقد یا پھر دو یا چار دن میں ادا کر دیتے ہیں اور وہ اس کے عوض ہمیں ایک دن کے بعد بنک سلپ دے دیتے ہیں جبکہ شدہ رقم مذکورہ  طریقے سے چین میں ہماری پارٹی کے اکاؤنٹ میں دو تین دن میں پہنچ جاتی ہے اور Money Exchange والے اپنی کمیشن  کے طور پر فی ٹی ٹی کے بدلے ایک ہزار روپے لیتے ہیں چاہے ٹی ٹی کی مالیت کچھ بھی ہو۔

ٹی  ٹی کے ریٹ میں اور ڈالر کے ریٹ میں موازنہ:

[1] ۔ مفتی صاحب کی رائے: اس میں دو صورتیں بن سکتی ہیں۔ بیع  و قرض۔

بیع کی صورت نا جائز کیونکہ بیع الکالی بالکالی ہے۔ قرض کی صورت میں جواز حاصل ہوگا لیکن اس طرح کہ ڈالر بھیجنے سے ڈالر ہی واپس کرنا ہوتے ہیں۔ لیکن اس کی بھی گنجائش ہے کہ فریق ثانی کی رضامندی سے ڈالر کی جگہ روپے دیدے۔ پھر جب ڈالر دے گا تو آپس کا طے کیے ہوئے ریٹ کے مطابق دے یا ادائیگی کے دن کے ریٹ کے مطابق دے۔

وضاحت: سائل سے فون پر زبانی  بات ہوئی ہے اس کے سوال کا منشا  جیسا کہ اس نے فو ن پر بتایا ” مفتی عصمت اللہ صاحب کی کتاب زر کا تحقیقی مطالعہ "میں مذکورہ عبارت ہے کہ

” جیسا کہ ایک کرنسی کے اندر قرض کا معاملہ جائز ہے اسی طرح دو کرنسیوں کے درمیان قرض کا معاملہ بھی جائز ہے۔ مثلا کسی نے آج کسی کو ایک ہزار ڈالر آج قرض دیے  اور ایک مہینہ بعد پاکستانی روپے وصول کرےگا۔ اس طرح سے کہ  یہ شرط لگانا فاسد ہے کیونکہ "القروض تقضی بامثالها” البتہ قرض  ان معاملات میں سے ہے جو شرط فاسد سے فاسد نہیں ہوتے بلکہ شرط خود فاسد ہوجاتی ہے۔ ہاں ایک مہینہ بعد ادائیگی میں ڈالر کی اس روز کی قیمت کا اعتبار ہوگا ایک مہینہ پہلے کی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا۔ کیونکہ اب مثلا ڈالر کی قیمت میں 2 روپے اضافہ ہو گیا ہے تو  یہ ادائیگی پچھلی قیمت کے حساب سے مکمل ڈالر ادا نہیں کرے گا۔ ( مفہوم  فون پر)”۔

اس بنیاد پر سائل کو اشکال ہوا کہ اگر پہلے ریٹ طے کریں گے تو آج تو مارکیٹ ریٹ  بڑھ جائے گا۔ تو یہ مارکیٹ کے حساب سے کم پیسے دے گا تو گویا کہ کم ڈالر ادا کرے گا جوکہ سود ہے۔

مثلاً آ ج ٹی ٹی کا ریٹ فی ڈالر 87 روپے ہے اور ڈالر کا ریٹ 86.10 روپے ہے۔ مارکیٹ میں ٹی ٹی اور حاضر ڈالر کی ویلیو کے درمیان فرق کبھی تو 50 پیسے کا اور کبھی 75 پیسے کا ہوتا رہتا ہے۔

سوال: اگر ہم آج دس ہزار ڈالر 87 روپے کے حساب سے طے کریں اور ایک ہزار روپے ان کی کمیشن جمع کر کے  ٹوٹل رقم  8710000 روپے طے شدہ ریٹ کے مطابق Money Exchange والے کو تین چار دن میں ادا کریں کیا یہ جائز کیا ؟

2۔ ہم لوگ ٹیلی فون پر ریٹ طے کرتے ہیں اور Money Exchange والوں کا نمائندہ ہماری دکانوں پر آکر پیسے لے جاتا ہے ۔ کیا یہ جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس معاملے میں ایک مرحلہ کرنسی کا  تبادلہ بھی ہے۔ اور کرنسی کے تبادلہ میں یہ شرط ہے کہ سودے کی نشست میں ہی کم از کم ایک طرف سے ادائیگی ہو۔ چونکہ باہر جو ڈالر بھجوانے ہیں وہ فوری اس کے فریق ثانی کو نہیں پہنچیں گے، اس لیے یہاں سے بھیجنے والا روپوں کی ادایئگی نقد کر دے۔ یا دوسری صورت یہ ہے کہ رقم بھیجنے والا  Exchange کو کہے کہ تم اپنی طرف سے اتنے ڈالر کی ادائیگی میری جانب سے کردو، میں  مثلاً تین دن بعد تمہارا حساب پورا کروں گا۔ رہا صفقتہ فی صفقتہ تو اس میں عرف عام ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved