• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تو میرے لیے جائز نہیں، تو میرے ساتھ زنا کرتی ہے

استفتاء

میرا بیوی سے اکثر لڑائی ہوتی ہے، اس دفعہ لڑائی ہوئی تو میں نے یہ الفاظ کہے "تجھے میں نے کئی دفعہ بولا ہے کہ تو میرے لیے جائز نہیں، تو میرے ساتھ زنا کرتی ہے”، یا یوں کہا "تو مجھ سے زنا کرواتی ہے، تو اپنے باپ کو بلوا اور میرے گھر سے چلی جا اور جا میرے گھر سے”۔ اس بات کو چالیس دن ہو گئے، ابھی تک ان سے کوئی پیار کی بات نہیں کی اور میں ابھی تک اس کے ساتھ لیٹا بھی نہیں۔ میں غصے میں تھا، نیت کا صحیح اندازہ نہیں۔ ایک سال پہلے میں نے کہا تھا "اپنے باپ کو بلا تجھے میں طلاق دیدوں”، لیکن اس کے باپ آئے نہیں، پھر صلح ہو گئی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر کی طلاق کی نیت نہیں تھی، اس لیے شوہر نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں، ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، البتہ شوہر کو اپنی بیوی کے سامنے اس بات پر قسم دینی ہو گی کہ میری ان الفاظ سے طلاق کی نیت نہیں تھی۔

توجیہ: 1۔ شوہر کے یہ الفاظ کہ "تو میرے لیے جائز نہیں ہے” اگرچہ "أنت عليّ حرام” کے مفہوم میں ہیں اور  "أنت عليّ حرام " سے بغیر نیت کے بھی صریح بائن طلاق ہو جاتی ہے ۔  لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں شوہر کے کہے گئے الفاظ کا استعمال

طلاق کے لیے معروف اور مشہور نہیں، اس لیے یہ الفاظ صریح میں شمار نہ ہوں گے، بلکہ کنایہ میں شمار ہوں گے۔

لو قال لها ألف نون تاء طاء الف لام قاف إن نوی الطلاق تطلق لأن هذه الحروف (يفهم منها ما هو المفهوم) من الصريح (إلا أنها لا تستعمل كذلك) فصارت كالكناية في الافتقار إلی النية. (رد المحتار: 4/ 515)

اس عبارت میں اتحاد مفہوم کے باوجود استعمال کی وجہ سے فرق کیا گیا ہے، اور پھر کنایہ کی بھی اس قسم میں شمار ہوں گے جو

محتمل سب و جواب ہیں۔ چنانچہ شامی میں ہے:

خلية، برية، حرام، بائن، و مرادفها يصلح سباً و في الرد أي و يصلح جواباً أيضاً. (4/ 519)

اور اس قسم کا حکم یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں بھی اس قسم کے الفاظ سے طلاق نیت پر موقوف ہوتی ہے۔ چنانچہ شامی میں ہے:

قال لامرأته أنت عليّ حرام …. تطليقة بائنة إن نوی الطلاق و في الرد أي أو دلت عليه الحال … بأن كان في حال مذاكرة الطلاق أما في حالة الرضا أو الغضب فلابد من النية لأنه يصلح سباً كما مرّ في الكنايات. (5/ 79)

2۔ اور شوہر کے یہ الفاظ کہ "میرے گھر سے چلی جا اور جا میرے گھر سے” یہ کنایہ کی قسم اول جو محتمل رد و جواب ہو، میں سے ہے، اور اس قسم میں بھی غصہ کی حالت میں طلاق نیت پر موقوف ہوتی ہے۔ چنانچہ شامی میں ہے:

و في الغضب توقف الأولان إن نوی وقع و إلا لا و في الرد أي ما يصلح رداً و جواباً و ما يصلح سباً و جواباً. (4/ 521)

و القول له بيمينه في عدم النية و يكفي تحليفها له في منزله و في الرد فاليمين لازمة له سواء ادعت الطلاق أم لا حقاً لله تعالی. (رد المحتار: 4/ 521) فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved