- فتوی نمبر: 3-152
- تاریخ: 04 مئی 2010
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
ایک دن مسقط سے سیر کے بعدواپسی پر،***نے بڑے آرام سےمجھے کہا کہ:
دیکھو میں ایک progressive آدمی ہوں اورمیراتمہارا جیسی conservative عورت کے ساتھ گذارا نہیں ہے۔ اس لیے مہربانی کرواور خود decision اپنے ہاتھ میں لو ، مجھ سے خلع لے لو۔ اپنے اور میرے حال پر رحم کرو، میں تھوڑا stable ہوا” تو ویسے ہی میں نے تمہیں چھوڑدینا ہے”۔
۲۔جب ہم دبئی گئے تھے تو *** سیر کے درمیان پر تھوڑی دیر بعد مجھے یہی کہتے تھے ، کہ دیکھیو، تمہاری اوقات سے زیادہ میں نے تمہیں سیرکرا دی ہے ۔ تو میں نے ان کے cursive کے گھر واپسی پر (جن کے پاس اجمان میں ہم ٹھہرے تھے) ان کو کہا کہ آپ سیرکرائیں اور میں اپنی اوقات میں بچے ساتھ آپ کے cursive کے گھر ہی stay کرلوں گی۔ جس پروہ غصے میں آکر چلانے لگے اور اپنے cursive کے آنے پر ان سےکہا کہ میں نے ویسے ہی اسے فارغ کردینا ہے ، یہ رکھنے والی عورت نہیں ہے۔ کیونکہ عورت ہی مرد کوبناتی ہے اور وہی اس کوتوڑتی ہے ۔ یہ عورت تو مجھے لے ڈوبی ہے”۔
۳۔ ایک دفعہ غصے میں انہوں نے مجھے کہا کہ” اگر میرے بیٹے کا مجھے خیال نہ ہوتاتو تمہیں کھڑے کھڑے گھر سے نکال دیتا”۔
۴۔مجھے پاکستان بھیجنے سے کچھ دن پہلے انہوں نے مجھ سےانتہائی غصے میں کہا کہ”تم مجھے کسی صورت بھی قبول نہیں ہو۔تم ہر لحاظ سےایک قابل نفرت عورت ہو، اور اب اگر عزت کی خاطر میرے ماں باپ تمہیں واپس لے بھی آئے تو تم کسی صورت بھی میرے گھر میں نہیں آؤگی۔ ہاں کیونکہ طلاق اللہ کے نزدیک ایک انتہائی براعمل ہے۔ اس لیے میں کبھی بھی تمہیں طلاق نہیں دوں گا۔ تمہاری یہی سزاہے کہ تم ساری زندگی میری پہلی بیوی کہلاؤگی”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵۔ اس بات کے اگلے دن ان کے والد کا فون آیاتو ان کو بھی یہی کہا کہ” اس نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ اور اب میں ہرگز اس کو واپس قبول نہیں کروں گا۔ اب تو میں دوسری شادی کرونگا”۔
۶۔اپنی والدہ سے فون پر بات پر بھی انہوں نے یہی کہاکہ ” آپ مانے کہ آپ نے میری زندگی تباہ کردی ہے۔ ایسی عورت سے میری شادی کرکے اور اب مزید خراب نہ کریں۔ کوئی جاہل گوار بھی اس سے بہتر بیوی ثابت ہوتی”۔
۷۔ائیرپورٹ کے راستے میں بھی*** نے مجھے کہا کہ: "تمہارا بہت شکریہ ،تم نے مجھے آزادکردیاہے۔ اب میں آرام سے دوسری شادی کرونگا اور میرے باقی رشتے بھی محفوظ رہیں گے۔ ہاں ۔۔۔۔کو میں کبھی نہیں چھوڑونگا ۔لیکن تم مجھے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہو”۔
۸۔ اس بات پر میں نے پھر *** سے پوچھا کہ” آپ شاید ابھی غصے میں ہیں۔ اس لیے آپ پھرآرام سے سوچ لیں۔کیونکہ کچھ عرصے بعدآپ پھر بھی کہیں گے کہ میں تمہیں ڈرارہاتھا اور میرا مطلب یہ نہیں تھا”۔ اس پر انہوں نے کہا کہ” اب تم کسی بھی صورت میں میرے گھر داخل نہیں ہوگی۔میں propertyبناؤں گا۔ گھر بناؤں گا۔لیکن تم اس میں قدم نہیں رکھوگی۔
۹۔اس سے پہلے انہوں نے مجھے کہا کہ "گالی دے کہ انہوں نےکہ تین لفظ کہوں گا تو میری زندگی سے دفع ہوگی۔(ایسے الفاظ وہ کئی موقعہ پر کہ چکے ہیں)
۱۰۔پھرائرپورٹ پر اپنی والدہ کو فون کرکے کہا کہ”یہ میں نے اس پر زندگی بھر کے لیے احسان کردیاہے کہ اسے ائر پورٹ تک لے آیاہوں ۔ اب نہ اسے ایک آنہ دوں گا اور نہ کبھی پوچھونگا”۔
۱۱۔میرے والد کے فون کرنے پر بعد میں انہوں نے مجھے کہا کہ” یہ معاملہ ختم کرو، تم ان سے کہو کہ مجھے خلع کے پیپر بھجوادیں تو پھر میں تمہیں ایک ہی مرتبہ فارغ کرکے بھجوادوں ۔ اور تب ہی میں تمہیں طلاق دونگا”۔
۱۲۔پھر کچھ دیر گزرنے کے بعدیہ بھی کہا کہ” دیکھو بات لٹکانے میں فائدہ نہیں ہے ۔ تم مجھے خلع کے کاغذبھجو اور جاکر مجھے confine بتاؤ، تمہاراحق مہر کتنا کم ہے ۔ میں وہ پوراکرو۔ تمہیں تو میں فارغ کروں گا”۔
ہر موقع پر اس طرح کہنے کے بعداگر ان کا غصہ ٹھنڈا ہوجانے پر میں ان سے بات کروں کہ آپ اسطرح سے مجھے کہہ رہے تھے تو وہ آگے سے مزید ناراض ہوتے تھے کہ "دیکھا تم دل میں کینہ رکھتی ہو اور میں تو یہ باتیں بھلاچکاہوں اورتم خوامخواہ پھر مسئلہ بنارہی ہو”۔
اسی طرح اب بھی وہ پھر معافی مانگنے کو تیار ہیں اور کہہ رہے ہیں تم تمام لوگ میرے رعب میں آجاؤ۔ اور جن لائن پر تم کہوگی میں تمہیں سوفیصد بدل کردکھاؤں گا۔ اور اپنی تمام savings بھی تمہارے نام کردوں گا۔ بس تم واپس آجاؤ(اس طرح کا معاملہ پہلے بھی ایک مرتبہ ہوچکاہے)۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
سوالنامے میں جو الفاظ ذکر کیے گئے ہیں ان سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved