• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’تمہیں فیصلہ دیتاہوں،تم آزاد ہو‘‘کہنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ

لڑکی کابیان

میری شادی میرے خالہ زاد کزن سے ہوئی،6محرم الحرام کی رات سات ،آٹھ کے درمیان ہماری لڑائی ہوئی، لڑائی ویسے صبح سے ہوئی تھی ،وہ نماز مغرب  پڑھ کر کمرے میں آئے کیونکہ میں پہلے کمرے میں موجود تھی ،پہلے وہ کمرے میں آئے اور اس کے بعداسکی بہنیں بھی آگئیں، میرے شوہر نے آتے ساتھ ہی اونچی آواز میں بولنا شروع کر دیا کہ میرا قصور بتاؤ ؟میں چپ رہی، اس کو میرے چپ رہنے سے اور غصہ آتا رہا دوبارہ کہا، بولو! میں کچھ پوچھ رہا ہوں ؟لیکن میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد اس نےاپنی بڑی بہن سے کہا تم کمرے سے چلی جاؤ،توں وی آزاد اے،توں وی گھر ونج(تم بھی آزاد ہو تم بھی گھر جاؤ)یہ دونوں جملے اپنی بہنوں کو بولے ہیں میں حیران تھی کہ یہ جملے اپنی بہنوں کو کیوں بول رہا ہے۔ بڑے غصے کے ساتھ ،پھر چھوٹی بہن کو بھی یہی الفاظ بولے ،میرے شوہر کا منہ زمین کی طرف  تھا، کمرے میں فرش پر بیٹھا تھا، اس نے مجھے کہا اسے بھی اماں کے گھر چھوڑ آؤ پھر اس نے بہت ہی دھیمی آواز میں کچھ کہا جو کہ میرے کانوں تک پہنچا تو سہی لیکن مجھے الفاظ کی سمجھ نہیں آئی،  میں نے اس سے پوچھا اس نے غصہ کیا اور کہا کہ میں اپنے ہوش حواس نال تن فیصلہ دینا(میں اپنے ہوش وحواس میں تمہیں فیصلہ دیتاہوں)، میں اپنے ہوش حواس نال تن فیصلہ دینا(میں اپنے ہوش وحواس میں تمہیں فیصلہ دیتاہوں)، میں اپنے ہوش حواس نال اپنے سوریاں نوں آزاد کرینا(میں اپنے ہوش وحواس میں اپنے سسرال والوں کو آزاد کرتاہوں)‘‘ میں نے بھاگ کر دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی، میں دروازہ  کھولتے ہی بے ہوش ہوگئی اور اس کے بعد مجھے ہوش نہیں رہا، جب مجھے دس بجے ہوش آیا تو میں اپنی امی لوگوں کے گھر تھی۔

لڑکے کابیان

میں حلفا تحریر کرتا ہوں کہ جہاں تک مجھے ہوش وحواس تھا کہ میں میری دو بہنیں اور میری بیوی ہم چار لوگ کمرے میں موجود تھے اس وقت میں شدید غصے کی حالت میں تھا، میں نے اپنی دونوں بہنوں کو کہا کہ مجھے اکیلا چھوڑ دواور باہر چلی جاؤ اور اس کو بھی چھوڑ کر آؤ ،میں تمہیں کہہ رہا ہوں، اس کے بعد میری  بیوی نے مجھ سے پوچھا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ کیا تم ہوش میں ہو ؟تو میں نے جواب دیا کہ میں ہوش میں ہوں، جب میں نے یہ جواب دیاتومیری بیوی کمرے سے باہر چلی گئی اور اس کی حالت غیر ہوگئی۔ یہاں تک جو بھی میں نے بیان کیا الله کو حاضر ناظر جان کر سچ بیان کیا ،اس کے علاوہ اگر میں نے لاشعوری کی حالت میں کوئی بھی بات کی ہےیا کوئی بھی لفظ کہا ہےتو مجھے اس کا علم نہیں، اس کو میری بیوی بہتر بتا سکتی ہے، خدا کی قسم میں اپنی بیوی کو طلاق دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

مذکورہ  صورت میں طلاق ہوئی یا نہیں؟شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوگیا ہے،اگر میاں بیوی چاہیں تو نیا نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں، نئے نکاح میں مہر بھی دوبارہ مقرر ہو گا اور گواہوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔

توجیہ:

شوہر کے یہ الفاظ کہ’’ توں وی آزاداے،توں وی گھر ونج (یعنی تو بھی آزاد ہے اورتوبھی  گھرجا ‘‘کنایات کی تیسری قسم میں سے ہیں جو غصے کی حالت میں محتاج نیت نہیں ہوتے۔

مذکورہ الفاظ کے بارے  میں سوال میں اگرچہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ الفاظ شوہر نے اپنی بہنوں کو کہے ہیں لیکن چونکہ بہنوں کا نام لے کر نہیں کہے  اور یہ الفاظ بہنوں کو کہنے کی کوئی ْتک بھی نہیں بنتی جب کہ اس مجلس میں بیوی بھی موجود تھی،اس لیےیہ الفاظ بیوی کے حق میں ہی شمار ہونگے ۔فیصلہ دینے کے الفاظ بھی کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں، اس لیے اگر پہلے الفاظ سے طلاق نہیں ہوئی تو ان سے ہو گئی۔

غرض مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائنہ بہرحال ہوگئی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved