• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ترک واجب کی وجہ سے نماز کا اعادہ کرنے کی صورت میں نئے آنے والے کا شامل ہونا

استفتاء

مفتی صاحب !نماز کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا( جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 85 پر) لکھا ہے کہ:

اگر پہلی دفعہ جماعت کی نماز میں واجب ترک ہونے کی وجہ سے دوبارہ جماعت کا اعادہ کر رہے ہیں تو ایسی صورت میں نئے آنے والے نمازیوں کے لئے اس جماعت میں شرکت کرنا درست نہیں ہے ،کیونکہ پہلی مرتبہ جماعت کی نماز سے فرض ادا ہو چکا ہے اور یہ صرف تکمیل ہے،فرض نہیں ہے، اس لئے فرض پڑھنے والے کی نماز غیر فرض پڑھنے والے کے پیچھے جائز نہیں ہے ۔

لیکن اس کے برعکس مفتی عبد الرحمن صاحب نے فتاوی عباد الرحمن (جلد نمبر2 صفحہ 114 اور 176پر لکھا ہے کہ:

اعادہ والی جماعت میں نووارد کی شمولیت جائز ہے(واجب ترک کرنے پراعا دہ والی جماعت میں)

تفصیلی دلائل کے لئے فتاوی عبادالرحمان دیکھیے اور اسی طرح جامعہ دارالعلوم کراچی والوں نے لکھا ہے کہ:

اس امام کے پیچھے اگر نماز پڑھ لی تو نماز ہوجائے گی۔

دارالعلوم کراچی والوں کے فتوے کی فوٹو کاپی ارسال ہے ۔مفتی صاحب تعارض کو دلائل کے ساتھ دور فرمائیں، عین نوازش ہو گی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ترک واجب کی وجہ سے جس نماز کا اعادہ کیا جا رہا ہو اس میں شامل ہونے والے نئے مقتدی کی فرض نماز ادا ہو جائے گی یا نہیں؟ اس بارے میں دو قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ اس کی نماز بھی ادا ہوجائے گی، یہ قول اوسع ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اس کے نماز ادا نہ ہوگی،یہ قول احوط ہے۔ اور اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ اصل فرض پہلی نماز تھی یا دوسری نماز ہے؟ اس میں بھی دونوں قول ہیں، جن حضرات نے اس میں پہلے قول کو ترجیح دی، ان کے نزدیک نئے مقتدی کی نماز درست نہ ہوگی، کیونکہ مفترض ( فرض پڑھنے والے )کی نماز متنفل( نفل پڑھنے والے) کے پیچھے درست نہیں اور جن حضرات نے دوسرے قول کو ترجیح دی، ان کے نزدیک نئے مقتدی کی نماز بھی درست ہو گی، کیونکہ یہ مفترض(فرض پڑھنے والے)کی اقتداء مفترض( فرض پڑھنے والے )کے پیچھے ہے جو کہ درست ہے ،لہذا دونوں حضرات کے فتوے اپنی اپنی جگہ درست ہیں ،صرف ترجیح کا فرق ہے کہ بعض نے ایک قول کو ترجیح دی ہے اور بعض نے دوسرے قول کو ترجیح دی ہے۔

نوٹ :دارالعلوم کے منسلک فتوے میں نئے مقتدی کی نماز سے متعلق کوئی بات نہیں ہے۔

۱۔ حاشية ابن عابدين (1/ 457)

 قوله ( والمختار أنه ) أي الفعل الثاني جابر للأول بمنزلة الجبر بسجود السهو وبالأول يخرج عن العهدة وإن كان على وجه الكراهة على الأصح كذا في شرح الأكمل على أصول البزدوي۔

حاشية ابن عابدين (2/ 65)

 تنبيه يؤخذ من لفظ الإعادة ومن تعريفها بما مر أنه ينوي بالثانية الفرض لأن ما فعل أولا هو الفرض فإعادته فعله ثانيا أما على القول بأن الفرض يسقط بالثانية فظاهر وأما على القول الآخر فلأن المقصود من تكريرها ثانيا جبر نقصان الأولى فالأولى فرض ناقص والثانية فرض كامل مثل الأولى ذاتا مع زيادة وصف الكمال ولو كانت الثانية نفلا لزم أن تجب القراءة في ركعاتها الأربع وأن لا تشرع الجماعة فيها ولم يذكروه ولا يلزم من كونها فرضا عدم سقوط الفرض بالأولى لأن المراد أنها تكون فرضا بعد الوقوع أما قبله فالفرض هو الأولى

 وحاصله توقف الحكم بفرضية الأولى على عدم الإعادة وله نظائر كسلام من عليه سجود السهو يخرجه خروجا موقوفا

طحطاوی علی مراقی الفلاح:248

والمختار ان المعادۃ لترک الواجب نفل جابر والفرض سقط بالاولی لان الفرض لایتکرر کما فی الدر وغیرہ

(الف)  فتاوی دارالعلوم دیوبند( جلد نمبر 3 صفحہ 147 )میں ہے:

سوال: ترک واجب کی وجہ سے جماعت ثانیہ میں اگر کوئی نیا ایسا شخص آملا کہ جس کے ذمے فرضیت باقی ہے تو اس کا ملنا مناسب ہے یا نہیں؟

جواب: صحیح یہ ہے کہ دوبارہ نماز پڑھنا ترک واجب کی وجہ سے جابر اول کے لئے ہے ،یعنی فرضیت پہلے ادا ہو چکی، بس جونیا شخص جماعت ثانیہ میں شریک ہوگا اس کی نماز فرض نہ ہو گی، یہی مختار محقق ابن ہمام رحمۃ اللہ کا ہے اور یہی اصح ہے۔ پس مسبوق کو چاہیے کہ اپنی نماز پوری کر کے جماعت ثانیہ میں ملے اور اگر پہلی نماز کو توڑ کر دوسری جماعت میں ملے گا تو اس کی نماز نہ ہوگی۔چنانچہ درمختار میں ہے:

 المختار انه جابر للاول لان الفرض لا يتكررالخ

(ب)نماز کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا جلد نمبر 2 صفحہ 75 میں ہے:

اگر پہلی دفعہ جماعت کی نماز میں واجب ترک ہونے کی وجہ سے دوبارہ جماعت کا ارادہ کر رہے ہیں تو اس صورت میں نئے آنے والے نمازیوں کے لئے اس جماعت میں شرکت کرنا درست نہیں ہے ،اس لیے فرض پڑھنے والوں کی نماز غیر فرض پڑھانے والے کے پیچھے جائز نہیں۔

فتاوی فریدیہ جلد نمبر 2 صفحہ 318 میں ہے:

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کراہت تحریمی کی وجہ سےفرض نماز کےعاده کرنے والے امام کے پیچھے نووارد مفترض کا اقتدا درست ہے یا نہیں؟

جواب :اس اقتداء کی صحت یا عدم صحت کے متعلق صریح جزیہ نہیں ملا اور اکابر اس میں مختلف ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ صحت کی طرف مائل ہیں اور مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمتہ اللہ عدم صحت کے قائل ہیں۔ راجح حکیم الامت رحمہ اللہ کا قول ہے ان شاء اللہ، کیونکہ اعادے کی تعریف یہ ہے:

هی فعل ما فعل اولا مع ضرب من الخلل ثانیا وقیل هو اتیان المثل الاول علی وجه الکمال کما فی منحة الخالق علی هامش البحر2/78)

۲۔حاشية ابن عابدين (2/ 65)

 تنبيه يؤخذ من لفظ الإعادة ومن تعريفها بما مر أنه ينوي بالثانية الفرض لأن ما فعل أولا هو الفرض فإعادته فعله ثانيا أما على القول بأن الفرض يسقط بالثانية فظاهر وأما على القول الآخر فلأن المقصود من تكريرها ثانيا جبر نقصان الأولى فالأولى فرض ناقص والثانية فرض كامل

حاشية ابن عابدين (2/ 223)

 فإذا أعادها وقعت فرضا مكملا للفرض الأول نظير إعادة المؤادة بكراهة فإن كلا منهما فرض كما حققناه في محله

خلاصہ یہ کہ معادہ فرض ہے اور ابن ہمام ؒ کا کلام بھی اسی طرف مشیر ہے کما

حاشية ابن عابدين (1/ 457)

قوله والمختار انه جابر للاول لان الفرض لایتکرر أي الفعل الثاني جابر للأول

 بمنزلة الجبر بسجود السهو وبالأول يخرج عن العهدة وإن كان على وجه الكراهة على الأصح كذا في شرح الأكمل على أصول البزدوي ومقابله ما نقلوه عن أبي اليسر من أن الفرض هو الثاني واختار ابن الهمام الأول قال لأن الفرض لا يتكرر وجعله الثاني يقتضي عدم سقوطه بالأول إذ هو لازم ترك الركن لا الواجب إلا أن يقال المراد أن ذلك امتنان من الله تعالى إذ يحتسب الكامل وإن تأخر عن الفرض لما علم سبحانه أنه سيوقعه

احسن الفتاوی جلد نمبر 3 صفحہ 352  میں ہے:

خلاصہ صلوۃ معادہ میں شریک ہونے والے کی نماز کی صحت کا قول ارجح و اوسع ہے اور قول عدم صحت کا احوط کثرت جماعت کی حالت میں نووارد مقتدیوں کے لئے یہ علم حاصل کرنا متعسر ہے کہ یہ جماعت اولی ہے یا معادہ؟لہذا ایسی صورت میں قول عدم صحت میں تنگی اور حرج ظاہر ہے البتہ کسی مقتدی کو اس کا علم ہو جائے تو اس کے لئے عمل بالاحوط اولیٰ ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved