• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اڑھائی لاکھ حق مہر کے عوض باہمی رضامندی سے پانچ تولے سونا ادا کر دیا گیا تو کیا اڑھائی لاکھ دوبارہ ادا کرنے ہوں گے؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کے ایک نکاح نامہ میں یہ لکھا ہوا ہے کہ

شق نمبر(13) مہر کی رقم{اڑھائی لاکھ روپے /250000

شق نمبر(15)  آیا مہر کا کچھ حصہ شادی کے موقع پر ادا کیا گیا ۔ اگر کیا گیا تو کس قدر {مہر کے عوض پانچ /5/ تولے سونا ادا کیا جائے گا۔

لڑکے والے کہتے ہیں کہ اڑھائی لاکھ یا پانچ تولے سونا لکھا ہوا ہے، یعنی سونے اور پیسوں میں سے ایک چیز کی ادائیگی کرنی ہو گی۔ اڑھائی لاکھ اس وقت کے لحاظ سے 5 تولے سونے کی قیمت بھی تھی، شادی والے دن لڑکے والوں نے 5 تولے سونا لڑکی کو دے دیا تھا، اب طلاق ہو رہی ہے تو کیا لڑکی کو اڑھائی لاکھ بھی دینا پڑے گا؟ یا حق مہر سونے کی صورت میں ادا ہو گیا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نکاح نامے کے مطابق جب اڑھائی لاکھ حق مہر کے عوض پانچ تولے سونا ادا کر دیا گیا تو اب طلاق کے وقت اڑھائی لاکھ دینا شوہر کے ذمے نہیں رہا بلکہ سونے کی صورت میں حق مہر ادا ہو گیا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں نکاح نامے کی شق نمبر 13 کی رو سے شوہر کے  ذمے اڑھائی لاکھ روپے بطور حق مہر ادا کرنا واجب ہوا پھر شق نمبر 15 کی رو سے یہ وعدہ کیا گیا کہ مہر کے عوض پانچ تولے سونا ادا کیا جائے گا۔ پھر شادی والے دن لڑکے والوں نے  پانچ (5) تولے سونا لڑکی کو دے کر اپنا وعدہ پورا بھی کر دیا جس نتیجے میں شوہر کے ذمے اڑھائی لاکھ حق مہر کی ادائیگی ہو گئی ۔

درمختار مع ردالمحتار (7/392) میں ہے:

(وجاز التصرف في الثمن) بهبة أو بيع أو غيرهما لو عينا أي مشارا إليه ولو دينا فالتصرف فيه تمليك ممن عليه الدين ولو بعوض ولا يجوز من غيره ابن ملك (قبل قبضه) سواء (تعين بالتعيين) كمكيل (أو لا) كنقود فلو باع إبلا بدراهم أو بكر بر جاز أخذ بدلهما شيئا آخر (وكذا الحكم في كل دين قبل قبضه كمهر وأجرة.

(قوله: وكذا الحكم في كل دين) أي يجوز التصرف فيه قبل قبضه، لكن بشرط أن يكون تمليكا ممن عليه بعوض أو بدونه كما علمت، ولما كان الثمن أخص من الدين من وجه كما قررناه بين أن ما عداه من الدين مثله.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved