- فتوی نمبر: 24-361
- تاریخ: 23 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
- ہمارے علاقے میں کچھ اس طرح کاروبار کرتے ہیں کہ کھاد کی جن بوریوں کی نقد قیمت مثال کے طور پر ہزار1000 روپے ہو تو اس کو ادھار اٹھارہ1800سو پر اس شرط کیساتھ بیچتے ہیں کہ جب آپ کی فصل آئے گی تو پیسے دے دینا تو آیا یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟
- فصل آنے کے بعد زمیندار کی طرف سے اگر تاخیر ہوتی رہے اور جو تاریخ طے کی ہے اس پر رقم ادا نہ کی جائے تو ان کی طرف سے رقم روزانہ کی بنیاد پر 100سو یا ڈیڑھ سو 150 روپے بڑھتی رہتی ہے تو کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟
- قسطوں پر کاروبار کرنا کن شرائط کے ساتھ جائز ہے؟
- اگر ایک آدمی کوئی چیز نقد فروخت کرنا چاہتا ہے لیکن بازار میں اس کی قیمت 1000 روپے ہے اور وہ جان بوجھ کر اپنا نفع بڑھا کر 2000 یا 2500روپے پر فروخت کرتا ہےاور لوگ لیتے بھی ہیں۔ تو یہ فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟
مزید تنقیح: ہمارے علاقے میں عام طور پر فصل کے آنے کا وقت طے ہوتا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ 5،7 دن کا فرق پڑتا ہے جس کی وجہ سے آپس میں نزاع کا احتمال نہیں ہوتا نیز اکثر کوئی تاریخ طے بھی کرلی جاتی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ ادھار سودے میں کوئی چیز نقد قیمت سے زیادہ میں فروخت کرنا جائز ہے بشرطیکہ معاملہ ہونے کے وقت کوئی ایک قیمت طے کرلی جائے ، نیز مذکورہ صورت میں اگرچہ فصل کے آنے کے وقت میں کچھ نہ کچھ فرق آجاتا ہے لیکن یہ فرق ایسا نہیں ہے جو جھگڑے کا باعث بنے اور عاقدین کو اس وقت کا علم ہوتا ہی ہے اس لیے مذکورہ صورت میں قیمت کی ادائیگی کے لیے فصل کے آنے کا وقت طے کرنا بھی جائز ہے۔
2۔ ادھار سودے میں مقررہ وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر پیسوں میں مزید اضافہ کرنا سود اور ناجائز ہے۔
3۔ اس سے متعلق تفصیلی فتوی ساتھ بھیجا جارہا ہے۔
4۔ کاروبار میں شریعت کی طرف سےنفع کی کوئی مخصوص مقدار طے نہیں ہے البتہ مارکیٹ ریٹ اور انسانی ہمدردی کا خیال رکھنا چاہیے لہذا مذکورہ صورت میں جب اس چیز کا مارکیٹ ریٹ 1000 روپے ہے تو اس شخص کو بھی اتنے میں ہی بیچنا چاہیے۔
البحر الرائق (6/ 124) میں ہے:
ألا ترى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل
حاشية ابن عابدين (6/53) میں ہے:
والجهالة ليست بمانعة لذاتها بل لكونها مفضية إلى النزاع
درر الحكام شرح غرر الأحكام (6/ 192) میں ہے:
وَالْجَهَالَةُ إنَّمَا تُوجِبُ الْفَسَادَ إذَا كَانَتْ مُفْضِيَةً إلَى النِّزَاعِ
فقه البيوع (1/139) میں ہے:
والظاهر ان هذا الاختلاف مرجعه الي معلومية مواعيد الحصاد والجزاز والعطاء فان كان معلوما في الجملة بحيث لا يقع فيه نزاع جاز التاجيل اليها والا لم يجز والله سبحانه اعلم
فقه البيوع (1/145) میں ہے:
وان زيادة الثمن من اجل الاجل وان كان جائزا عند بداية العقد ولكن لاتجوز الزيادة عند التخلف في الاداء فانه ربا في معني اتقضي ام تربي؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved